AD Banner

{ads}

(کیا بابا رتن ہندی صحابی ہیں؟)

 (کیا بابا رتن ہندی صحابی ہیں؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مسئلہ:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ بابا رتن ہندی کو بعض لوگ صحابہ میں شمار کرتے ہیں کیا یہ صحیح ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں

المستفتی:۔سید شاداب احمد قادری رضوی میرٹھ اترپردیش

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب

بابا رتن ہندی ہندوستان میں پیدا ہو ئےان کے صحابی ہو نےمیں علماء کااختلاف ہے بعض صحابی نہیں مانتے اور بعض صحابی مانتے ہیں جیسے علامہ ابن حجرعسقلانی علیہ الرحمہ الاصابہ فی تمیز الصحابہ میں آپ کے صحابی ہو نے کو تحریر کیا ہے اور اسی الاصابہ فی تمیز الصحابہ کے حوالے سے مجدد اعظم سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے فتاوی رضویہ میں تحریر فرمایا نیزرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی معیت میں غزوہ خندق میں حاضر ہونے اور آپ سے حدیث کو سننےاور دعائے نبوی سے سات سو سال زندہ پانے کا بھی تزکرہ کیا ہے عبارت ملاحظہ ہو۔

بالفرض معاذاللہ اور کچھ نہ ہوتا تو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تک اتصال سلسلہ کی برکت کیا تھوڑی تھی جس کے لئے علمائے کرام آج تک حدیث کی سندیں لیتے ہیں یہاں کہ رتن ہندی وغیرہ کی اسانید سے طلب برکت کرتے ہیں۔

امام ابن حجر عسقلانی اصابہ فی تمیز الصحابہ میں فرماتے ہیں:انتقیت عن المحدث للرحال جمال الدین محمد بن احمد بن امین الاقشھری نزیل المدینۃ النبویۃ فی فوائد رحلتہ اخبرنا ابوالفضل وابوالقاسم بن ابی عبداﷲ بن علی بن ابراہیم بن عتیق اللواتی المعروف بابن الخباز المھدوی (فذکر بسندہ حدیثا عن خواجہ رتن) قال وذکر خواجہ رتن بن عبداﷲ انہ شہد مع رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الخندق وسمع منہ ہذاالحدیث ورجع الی بلاد الہند ومات بہا وعاش سبع مائۃ سنۃ ومات لسنۃ ست وتسعین وخمسمائۃ وقال الاقشھری وہذا السند یتبرک بہ وان لم یوثق بصحتہ ‘‘ کوچ کرنے والے محدث جمال الدین محمد بن احمد بن اقشہری مدینہ منورہ میں رہائش پذیر سے خبر دیا گیا، میں اپنی فوائد رحلت میں بیان کیا ہم سے ابوالفضل اور ابوالقاسم ابن عبداللہ بن ابراہیم بن عتیق اللواتی المعروف بہ بن خباز مہمدوی کہ انھوں نے اپنی سند سے حدیث ذکر کی حضرت خواجہ رتن سے فرمایا اور ذکر کیا کہ خواجہ رتن بن عبداللہ نے کہ تحقیق رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی معیت میں غزوہ خندق میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس حدیث کو سنا اور ہندوستان کے شہروں میں واپس آئے اور وہاں فوت ہوئے اور سات سو سال زندہ رہے اور ۵۹۶؁ھ میں وفات پائی، اور اقشہری نے فرمایا اس سند سے برکت حاصل کی جاتی ہے اگر چہ اس کی صحت کا وثوق (اعتماد) نہیں ہے۔ ( الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ ترجمہ انس بن عبداللہ ۲۷۵۹ ؍دارصادر بیروت ۱/ ۵۳۷؍بحوالہ فتاوی رضویہ جلد ۲۱؍ ص۴۵۶؍۴۶۶ دعوت اسلامی )

ایک دوسرے مقام پر فرما تے ہیں کہ مولانا ملک العلماء بحر العلوم فواتح الرحموت بذیل المستصفٰی الاصل الثانی منشورات الشریف الرضی قم ایران۲؍ ۱۷۵ ؍میںتحریر فرماتے ہیں العدول من غیرالائمۃ لایبالوں عمن اخذوا و رووا الاتری الشیخ علاء الدولۃ السمنانی کیف اعتمد علی الرتن الھندی و ای رجل یکون مثلہ فی العدالۃ  ‘‘ یعنی اماموں کے سوا اور ثقہ عادل حضرات اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ کس سے لیتے کس سے روایت کرتے ہیں حضرت شیخ علاء الدولۃ سمنانی قدس سرہ کو نہ دیکھا کیونکر رتن ہندی پر اعتماد فرمالیا حضرت ممدوح کے برابر کون عادل ہوگا۔(بحوالہ فتاوی رضویہ جلد ۲۲؍ص ۴۹۶؍دعوت اسلامی ) 

اور اسی طرح فتاوی رضویہ جلد ۸؍ ص ۳۹۱؍ پر بھی عبارت موجود ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بابا رتن ہندی کی ملاقات حضور ﷺ سے ہوئی ہے اور آپ ﷺ کے ساتھ غزوۂ خندق میں شامل ہو ئے اور حضور ﷺ سے حدیثیں سنیںاور آپ سےحضرت شیخ علاء الدولۃ سمنانی قدس سرہ نے روایت لی ہے۔واللہ تعالی اعلم بالصواب

کتبہ

فقیرتاج محمد قادری واحدی


ذہنی ازمائش گروپ 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads