(امام تکبیر آہستہ کہہ کر رکوع کیا تو کیا حکم ہے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ اگر امام نے عصر کی نماز میں بھول کر آہستہ تکبیر کہی اور رکوع میں چلا گیا پھر تسبیح رکوع ایک یا دو مرتبہ پڑھنے کے بعد بلند آواز سے تکبیر کہی تو کیا سجدۂ سہو کرنے سے نماز ہوجائیگی یا دوبارہ نماز پڑھائی جائے، اور اگر سجدۂ سہو کر لیا تو پھر کیا حکم ہے؟
المستفتی:۔محمد مسعود رضا: احمدآباد
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
امام پر سجدۂ سہو لازم نہ تھا، کیونکہ کسی واجب کا ترک نہیں پایا گیا تھا، لیکن پھر بھی امام نے اگر سجدہ سہو کرلیا ہے تو امام اور اُن مقتدیوں کی نماز ہوگئی کہ جو پہلی رکعت سے آخر تک امام کے ساتھ شامل تھے، البتہ جو نمازی مسبوق تھے، اُنہوں نے اگر امام کے ساتھ سجدۂ سہو میں شرکت کی تھی تو اُن کی نماز فاسد قرار پائے گی جبکہ اُنہیں سجدۂ سہو میں امام کی پیروی کے بعد معلوم ہو کہ امام نے بلاوجہ سجدۂ سہو کیا تھا ورنہ نہیں، اور جو لوگ سجدہ سہو میں جانے کے بعد ملے ہوں، اُن کی نماز ہی نہیں ہوئی ہے۔چنانچہ امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان حنفی متوفی۱۳۴۰ھ سے دریافت کیا گیا کہ امام بھول گیا سجدہ سہو کرلے تو اس صورت میں نماز امام و مقتدین اور بعد سجدہ سہو کے جو مقتدی ملے ان سب کی نماز کیسی ہوگی؟ اور حقیقت میں سہو نہیں تھا، تو آپ علیہ الرحمہ نے جواباً ارشاد فرمایا:امام و مقتدیان سابق کی نماز ہوگئی جو مقتدی اس سجدہ سہو میں جانے کے بعد ملے ان کی نماز نہیں ہوئی کہ جب واقع میں سہو نہ تھا دہنا سلام کہ امام نے پھیرا ختم نماز کا موجب ہوا یہ سجدہ بلا سبب لغو تھا تو اس سے تحریمہ نماز کی طرف عود نہ ہوا اور مقتدیان ما بعد کو کسی جزءِ امام میں شرکت امام نہ ملی لہٰذا ان کی نماز نہ ہوئی ولہٰذا اگر سجدہ سہو میں مسبوق اتباع امام کے بعد کو معلوم ہو کہ یہ سجدہ بے سبب تھا اس کی نماز فاسد ہوجائے گی کہ ظاہر ہوا کہ محل انفراد میں اقتدا کیا تھا، ہاں اگر معلوم نہ ہوا تو اس کےلئے حکم فساد نہیں کہ وہ حال امام کو صلاح و صواب پر حمل کرنا ہی چاہئے۔(فتاوی رضویہ،جلد۸ص ۱۸۵)
اور فقیہ ملّت مفتی جلال الدین امجدی حنفی متوفی ۱۴۴۲ھ کے مصدّقہ فتاوی میں ہے:اگر وہ شخص منفرد ہے اور سجدۂ سہو واجب نہیں تھا لیکن کیا تو اس کی نماز ہوگئی،اسی طرح اگر امام نے بلاضرورت سجدۂ سہو کیا تو مدرک یعنی وہ مقتدی جو پہلی رکعت سے آخر تک شریک جماعت رہے اور امام، سب کی نمازیں ہوجائیں گی، اس لئے کہ جب سجدۂ سہو واجب نہ ہو تو اس کی نیت سے سلام پھیرتے ہی نماز تمام ہوجاتی ہے، اور اگر وہ مسبوق ہے یعنی ایسا مقتدی ہے کہ جس کی کچھ رکعتیں چھوٹ گئیں اور امام نے بے جا سجدۂ سہو کیا اور اس نے امام کی اتباع کی تو اس کی نماز باطل ہوگئی۔
ملک العلماء حضرت علامہ امام علاء الدین کاسانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: المسبوق اذا تابع الامام فی سجود السھو ثم تبین انہ لم یکن علی الامام سھو حیث تفسد صلاۃ المسبوق (بدائع الصنائع،جلداول صفحہ ۱۷۵؍بحوالہ فتاوی فقیہ ملت جلد اول ص ۲۱۷)واللہ تعا لیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد اُسامہ قادری
کمپیوژ و ہندی میں ٹرانسلیٹ کے لئے اس پر کلک کریں
واحدی لائبریری کے لئے یہاں کلک کریں
हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔