AD Banner

(شب برأت میں کون سی نماز پڑھی جا تی ہے ؟)

 (شب برأت میں کون سی نماز پڑھی جا تی ہے ؟)

  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ شب برأت میں کون سی نماز پڑھی جا تی ہے ؟اورکتنی رکعت پڑھی جا ئے گی؟ اور کس طرح ؟کیا جماعت سے پڑھ سکتے ہیں ؟اور اسکی فضیلت کیا ہے؟ مع حوالہ تحریر فرما ئیں ؟     
المستفتی:۔محمد بصیر سلطان پور

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوہاب 

  شب برأ ت میں جو نماز پڑھی جا تی ہے وہ نفل ہے اور نماز نفل کی طرح دو دو رکعت کرکے پڑھی جا ئے گی مگر نماز نفل تداعی طور پریعنی تین سے زیادہ مقتدی کے ساتھ پڑھنا مکروہ (تنزیہی) ہے حدیث شریف سے چودہ رکعت پڑھنا ثا بت ہے جیسا کہ حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نِصف شعبان کی رات دیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور چودہ ۱۴؍رکعت نماز ادا فرمائی،پِھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فارغ ہو کر بیٹھ گئے اور چودہ ۱۴؍مرتبہ سورۃ الفاتحہ یعنی الحمد للہ مکمل ،پِھر چودہ ۱۴؍مرتبہ سورۃ ناس،ایک بار آیت الکرسی تلاوت فرمائی اور ایک بار’’لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَ ؤُ وْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان ۔ ( سورۃ توبہ آیت نمبر ۱۲۸)

  میں نے عر ض کیا کہ اس عمل کا کیا ثواب ہے؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ ہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا! جس آدمی نے یہ عمل کِیا جیسا تم نے دیکھا ہے تو اس کے لئے بیس حج اور بیس سال کے روزوں کا ثواب ہو گا اور اگر وہ صبح کا روزہ رکھے تو اس کے گزشتہ اور آئندہ دو سال کے روزوں کا ثواب ہو گا اور ایک آئندہ کے روزوں کا ثواب ملے گا۔(کنزالعمال حدیث نمبر۳۸۲۹۳)

  لیکن مشائخ عظام سے ۱۰۰؍سو رکعت پڑھنا بھی ثا بت ہے جیسا کہ مجدد اعظم امام احمد رضاخاں فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ’’مشائخ کرام سَو رکعت ہزارمرتبہ قل ھواللہ احد کے ساتھ اداکرتے ہر رکعت میں دس دفعہ قل ھواللہ احد پڑھتے، اس نماز کانام انھوں نے صلٰوۃ الخیر رکھاتھا، اس کی برکت مسلمہ تھی، اس رات (یعنی پندرہ شعبان) میں اجتماع کرتے اور احیاناً نماز کوباجماعت اداکرتے تھے۔ ( قوت القلوب فصل العشرون فی ذکراحیاء اللیالی مطبوعہ دارصادر بیروت ۱ ؍۶۲)
اوریہی علمائے تابعین سے لقمان بن عامروخالد بن معدان اور ائمہ مجتہدین سے اسحق بن راہویہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کاہے مگرہمارے ائمہ رضی اللہ تعالی عنہم کا مذہب وہی ہے کہ جماعت بتداعی ہو تومکروہ ہے ’’کما نص علیہ فی البزازیۃ والتتارخانیۃ والحاوی القدسی والحلیۃ والغنیۃ ونورالایضاح ومراقی الفلاح والاشباہ وشروحھا والدرالمختار وحواشیہ وغیرذلک من الکتب المعتمدۃ‘‘جیسا کہ اس پر بزازیہ، تتارخانیہ، الحاوی القدسی، حلیہ، غنیہ، نورالایضاح، مراقی الفلاح، الاشباہ اور اس کی شروح، درمختار اور اس کے حواشی، اور اس کے علاوہ دیگرمعتمد کتب میں تصریح ہے۔(فتاوی رضویہ جلد۷ ص ۴۱۹)
  یاد رہے جسکی نماز قضاء ہوں وہ نفل نہ پڑھے بلکہ اپنی قضاء نماز یں ادا کرے کیونکہ جس کے ذمہ فرض نماز یں ہوںگی اسکی نفل قبول نہیں ہوتی جیسا کہ حدیث شریف میں ہے’’ لما حضرابابکرن الموتُ دعا عمر فقال اتق اللہ یا عمر واعلم ان لہ عملا بالنھار لا یقبلہ باللیل و عملا باللیل لا یقبلہ بالنھار واعلم انہ لایقبل نافلۃ حتی تؤدی الفریضۃ ‘‘جب خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سیّد ناصدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نزع کا وقت ہوا امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر فرمایا اے عمر!اللہ سے ڈرنا اور جان لو کہ اللہ کے کچھ کام دن میں ہیں کہ انھیں رات میں کرو تو قبول نہ فرمائے گا اور کچھ کام رات میں کہ انھیں دن میں کرو تو مقبول نہ ہوں گے، اور خبردار رہو کہ کوئی نفل قبول نہیں ہوتاجب تک فرض ادا نہ کرلیا جائے۔ (حلیۃ الاولیاء، ذکرالمہاجرین نمبر۱ ابوبکر الصدیق دارلکتاب العربی بیروت۱ ؍۳۶فتاوی رضویہ جلد ۱۰؍ص۱۸۳)واللہ اعلم بالصواب 


Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad