(نماز میں چھینک آئی اور الحمدللہ کہہ دیا تو نماز کا کیا حکم ہے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ نماز میں چھینک آئی اور الحمدللہ کہا تو نماز فاسد ہو جاتی ہے؟ کچھ علماء فرماتے ہیں کہ اگر عادتاً کسی نے الحمد للہ کہہ دیا حمد بیان کردی تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔ اس متعلق جو حکم شرع ہے اس سے آگاہ فرمائیں
المستفتی:۔ محمد شبر پاکستان
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
اگر کسی کو نماز میں چھینک آئی اور اس نے الحمد للہ کہا خواہ عمدا ہو یا سہوا تو نماز ہوگئی مگر احسن یہ ہے کہ خاموش رہے اور بعد نماز الحمد للہ کہہ لے۔جیسا کہ مصنف بہار شریعت حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ: نماز میں چھینک آئے، تو سکوت کرے اور الحمد ﷲ کہہ لیا تو بھی نماز میں حرج نہیں اور اگر اس وقت حمد نہ کی تو فارغ ہو کر کہے۔(بہارشریعت ،ح۳؍ص ۶۰۵؍ دعوت اسلامی)
اور فتاوی عالمگیری میں ہے:"ولو عطس فقال له المصلی ،الحمد لله لا تفسد لانه لیس بجواب" "وان اراد به جوابه اواستفھامه فالصحیح انھا تفسد ھکذافی التمر تاشی""ولو قال العاطس لاتفسد صلاته وینبغی ان یقول فی نفسه والاحسن ھو السکوت کذا فی الخلاصه" اور اگر کسی نے چھینکا اور نمازی نے الحمد للہ کہا تو فاسد نہ ہوگی اس لئے کہ یہ جواب نہیں ہے اور اگر اس جواب کے ذریعہ اسے سمجھانے کا ارادہ کیا تو صحیح یہ ہے کہ نماز فاسد ہوجائے گی اسی طرح تمرتاشی میں لکھا ہے۔اور اگر نماز پڑھنے میں چھینکا اور خود الحمد للہ کہا تو نماز فاسد نہ ہوگی اور چاہئے کہ اپنے دل میں کہہ لے اور بہتر ہے کہ خاموش رہے اسی طرح خلاصہ میں لکھا ہے۔(فتاوی عالمگیری ،ج۱؍ص ۱۰۹)واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد فرقان برکاتی امجدی
کمپیوژ و ہندی میں ٹرانسلیٹ کے لئے اس پر کلک کریں
واحدی لائبریری کے لئے یہاں کلک کریں
हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें
مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔