(امام بغیر عمامہ ہو اور مقتدی مع عمامہ تو کیا حکم ہے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلہ میں کہ امام عمامہ نہ باندھے ہو اور مقتدی عمامہ باندھ کر جماعت میں شامل ہوا تو نماز میں کوئی کمی تو واقع نہ ہوگی چونکہ آج کل اکثر ایسا ہوتا ہے کہ امام کے سرپر عمامہ نہیں ہوتا ہے جبکہ کچھ مقتدیوں کے سروں پر عمامہ موجود ہوتا ہےتشفی بخش جواب عنایت فرمائیں
المستفتی:۔محمد عارف الہ آباد
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
صورت مستفرہ میں کسی کی نماز میں کمی تو درکنار کسی طرح کی کراہت بھی نہیں اس لئے کہ عمامہ مستحبات نماز میں سے اور ترک مستحب سے کراہت بھی نہیں آتی جیسا کہ حضور اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیںکسی کی نماز میں کچھ خلل نہیں، عمامہ مستحبات نماز سے ہے اور ترک مستحب سے خلل درکنار کراہت بھی نہیں آتی،وذلک لان التعمم من سنن الزوائد و سنن الزوائد حکمھا حکم المستحب ‘‘
درمختارمیں ہے :لھا اٰداب ترکہ لایوجب اسائۃ ولاعتابا کترک سنۃ الزوائد لکن فعلہ افضل‘‘
ردالمحتارمیں ہے :السنۃ نوعان سنۃ الھدی وترکھا یوجب اساءۃ وکراھۃ کالجماعۃ و الاذان والاقامۃ ونحوھا وسنۃ الزوائد وترکہا لایوجب ذلک کسیر النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی لباسہ والنفل و منہ المندوب یثاب فاعلہ ولایسیئ تارکہ کذا حققہ العلامۃ ابن کمال فی تغییر التنقیح وشرحہ فلافرق بین النفل و سنن الزوائد من حیث الحکم لانہ لایکرہ ترک کل منھما وقدمثلوا السنۃ الزوائد بتطویلہ علیہ الصلٰوۃ والسلام القرائۃ و الرکوع والسجود ولمالم تکن مکملات الدین وشعائرہ سمیت سنۃ الزوائد بخلاف سنۃ الھدی وھی السنن المؤکدۃ القریبۃ من الواجب التی یضلل تارکھا اھ ملخصا(فتاویٰ رضویہ قدیم جلد۳؍ صفحہ ۴۵۱)واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد ابراہیم خان امجدی قادری رضوی
کمپیوژ و ہندی میں ٹرانسلیٹ کے لئے اس پر کلک کریں
واحدی لائبریری کے لئے یہاں کلک کریں
हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें
مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔