( تراویح کی اجرت لینا کیسا ہے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ حفاظ کرام کو تراویح کی اجرت لینا کیسا ہے؟اور اگر کسی حافظ نے یہ کہدیا ہو کی میرا مقصد صرف قرآن سنانا ہے تو اس کے لئے جو پیسے دئے جائیں وہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ جواب سے نوازیں حوالے کے ساتھ کرم ہوگا نوازش ہوگی ؟
المستفتی:۔ عبد الحفیظ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
ہمارے محققین اکابر اور دور ِحاضر کے مستند مفتیان کرام کا فتویٰ یہی ہے کہ تراویح کا معاوضہ'' لا اجرۃ علی الطاعۃ'' کے تحت لینا شرعاً جائز نہیں ہے اور رقم طے کر کے تراویح پڑھانا بھی جائز نہیں ۔
وہاں اگر لوجہ اللہ تراویح پڑھانے والاکوئی حافظ نہ ملے تو تراویح پڑھانے والے کو ماہ رمضان میں نائب امام بنایا جائے اس کے ذمے ایک یا دو نماز مقرر کردی جائے اور معقول تنخواہ طے کر دی جائے اگر پہلے سے وہی امام مقرر ہے اور تراویح بھی اسی نے پڑھانی ہے تو اس کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا جائے تو جائز ہوگا کیونکہ امامت کی اجرت کو جائز قرار دیا گیا ہے امام کو چاہئے کہ اللہ کی رضا کی خاطر پڑھائے معاوضہ طے بھی نہ کرے لینے کی نیت بھی نہ رکھے تاہم مقتدیوں میں سے کوئی امام صاحب کو ہدیہ دینا چاہے تو امام کے لئے ہدیہ لینے کی گنجائش ہے۔واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد منظور احمد یار علوی
کمپیوژ و ہندی میں ٹرانسلیٹ کے لئے اس پر کلک کریں
واحدی لائبریری کے لئے یہاں کلک کریں
हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔