AD Banner

(رمضان میں وتر کی جماعت کیوں؟ )

 (رمضان میں وتر کی جماعت کیوں؟ )

  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ

مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ ہم تراویح کے وقت وتر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں اور وقت میں تنہا پڑھتے ہیں ایسا کیوں؟  حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں                  

المستفتی:۔ وصی اللہ فیضی 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون الملک الوہاب 

  وتر کی نماز جماعت سے رمضان شریف میں تراویح کی تبعیت میں پڑھی جاتی ہے چونکہ تراویح جماعت سے ہوتی ہے اس لئے وتر بھی جماعت سے پڑھی جائے گی یہی افضل ہے اور غیر رمضان میں تراویح ہوتی نہیں اس لئے وتر کی جماعت بھی نہیں کیونکہ تبعیت باقی نہیں رہی۔

  اس میں فقہاء کے کئی اقوال ہیں چنانچہ بہارشریعت میں ہے اگرعشا جماعت سے پڑھی اور تراویح تنہا تو وتر کی جماعت میں  شریک ہو سکتا ہے اور اگر عشا تنہا پڑھ لی اگرچہ تراویح باجماعت پڑھی تو وتر تنہا پڑہے۔

  اور ردالمحتار میں ہے’’رجح الکمال الجماعۃ بانہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کان اوتربھم ثم بین العذر فی تأخرہ مثل ماصنع فی التراویح فکما ان الجماعۃ فیھا سنۃ فکذلک الوتر بحر وفی شرح المنیۃ الصحیح ان الجماعۃ فیھا افضل الاان سنیتھا لیست کسنیۃ جماعۃ التراویح اھ قال الخیر الرملی وھذاالذی علیہ عامۃ الناس الیوم   اھ  

  وقولہ المحشی ایضا بانہ مقتضی مامرمن ان کل ماشرع بجماعۃ فالمسجد افضل فیہ اھ  مافی ردالمحتار اقول فی ھذہ التقویۃ عندی نظر ظاھرفانہ لوکان المراد ان ماجاز بجماعۃ فالمسجد افضل فیہ فممنوع فان کل نفل یجوز بجماعۃ مالم یکن علی سبیل التداعی مع ان الافضل فیہ البیت وفاقا وان کان المراد ماندب فیہ الشرع الی الجماعۃ فمسلم لکن ھذا اول المسئلۃ فالاستناد بہ صریح المصادرۃ فلیتأمل‘‘کمال نے اس بنا پر جماعت کو ترجیح دی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صحابہ کو وتر پڑھائے،پھرجماعت چھوڑنے پر وہی حکمت بیان کی جو نماز تراویح میں تھی تو وتر کاحکم تراویح والاہے جس طرح ان میں جماعت سنت ہے اسی طرح وتروں میں بھی، بحر، شرح المنیہ میں ہے کہ صحیح یہ ہے کہ جماعت وتروں میں افضل مگر اس سنت تراویح کی جماعت کی طرح نہیں۔ اھ  خیر رملی نے فرمایا اسی پر آج لوگوں کا عمل ہے اھ محشی نے بھی یہ کہتے ہوئے اس کی تائید کی گزشتہ اصول کاتقاضا بھی یہی ہے کہ ہروہ نماز جوجماعت کے ساتھ مشروع ہے وہ مسجد میں افضل ہے۔ اھ( بحوالہ فتاوی رضویہ ج۷؍ص۴۲)

  اورعلامہ شامی نے قہستانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جس شخص نے فرض جماعت کے ساتھ نہ پڑھی ہو (بلکہ علیحدہ پڑھے ہوں) وہ وتر کی جماعت میں شریک نہیں ہوسکتا، لیکن یہ قول ضعیف ہے، صحیح یہ ہے کہ شریک ہوسکتا ہے، جیسا کہ علامہ طحطاوی نے درمختار کے حاشیہ میں تصریح کی ہے ان تصریحات کاماحصل یہ ہے کہ اگرعشاء کی نماز جماعت سے پڑھی ہے تو وتر کی جماعت افضل ہے ضروری نہیں۔واللہ اعلم بالصواب 

کتبہ

منظوراحمد یارعلوی ممبئی


کمپیوژ  و ہندی میں ٹرانسلیٹ کے لئے اس پر کلک کریں

واحدی لائبریری کے لئے یہاں کلک کریں 

हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें 

مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad