(کیا نفل کی نیت میں وقت کانام لیناہوگا ؟)
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہمسئلہ:۔ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ ظہر مغرب اور عشاء کی نماز میں جونفل نماز ہے اس کی نیت کرنے میں وقت بولاجائے گا یا نہیں نیز یہ بھی بتائیں کہ دوسری نفلی عبادات کی نیت کس طرح کی جائے گی۔
المستفی:۔نصیب علی یوپی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
نفل نماز کسی بھی وقت کی ہو اور کوئ بھی ہو اس کےلئے مطلق نیت کافی ہے ۔ مگر احتیاط یہ ہے کہ سنت وقت ، تراویح ، قیام اللیل کی نیت کرلے ۔ اور باقی سنتوں میں سنت رسول اللہ کی کہہ لیا کریں تاکہ حضوراقدس ﷺ کی متابعت ہوجائے ۔ باقی ظہر مغرب وعشاء میں جو نفلیں ہیں ان کی نیت مطلق ہی کافی ہے ۔ فقیہ اعظم حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ علامہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃوالرضوان تحریرفرماتےہیں اصح یہ ہے کہ نفل و سنت و تراویح میں مطلق نماز کی نیت کافی ہے، مگر احتیاط یہ ہے کہ تراویح میں تراویح یا سنت وقت یا قیام اللیل کی نیت کرے اور باقی سنتوں میں سنت یا نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی متابعت کی نیت کرے، اس لیے کہ بعض مشائخ ان میں مطلق نیت کو ناکافی قرار دیتے ہیں ۔ نفل نماز کے لیے مطلق نماز کی نیت کافی ہے، اگرچہ نفل نیت میں نہ ہو۔( بہارشریعت جلداول حصہ سوم صفحہ ۴۹۷؍المکتبۃ المدینۃ دعوت اسلامی)
دوسری نفلی عبادات میں نام لینا بہتر ہے ۔ جیسے چاشت کی نفل نماز پڑھنی ہے تو نیت اس طرح کریں ۔ نیت کی میں نے دورکعت نماز نفل چاشت واسطے اللہ تعالی کے منھ میرا کعبہ شریف کی طرف اللہ اکبر ۔ اسی طرح ہرنفلی نماز جو کسی خاص مقصد کےلئے ہو تو اس مقصد کانام لینا بہتر ہے ۔ حالانکہ نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَلِکُلِّ امْرِئٍ مَانَوٰی‘‘اعمال کا مدار نیت پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہ ہے، جو اس نے نیت کی
(صحیح البخاری؍کتاب بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحي إلی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ۔ إلخ، الحدیث :۱ ، جلداول ۱ ، صفحہ ۵ )واللہ تعا لیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
العبد ابوالفیضان محمد عتیق الله صدیقی فیضی یارعلوی ارشدی عفی عنہ
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔