( حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تراویح کی امامت کون کرتاتھا ؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ق برکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں تراویح کی امامت کون کرتاتھا ؟تراویح کی دس رکعتیں کس کے زمانے میں تھیں ؟اور کتنی رکعت پڑھنی چا ہئے؟
المستفتیہ:۔فاطمہ قادریہ رضویہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں تراویح کی امامت حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرتے تھے۔ اور دس رکعتیں کسی کےزمانے میں ہوں ایساکہیں سےثابت نہیں اور مشکوۃ شریف میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےجوروایت ہےکہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گیارہ رکعت پڑھانے کاحکم دیاتھایعنی تین رکعت وتر اورآٹھ رکعت تراویح۔تواس روایت کے بارے میں علامہ ابن البرنےفرمایاکہ وہم ہے اور صحیح یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔(مرقاۃ جلددوم صفحہ ۱۷۴)
اورملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ فتح القدیر سے نقل کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں( جمع بینھمابانہ وقع اولا ثم استقرالامرعلی العشرین فانہ المتوارث) یعنی ان دوروایتوں کواس طرح جمع کیاگیاہے کہ عہدفاروقی میں لوگ پہلےتوآٹھ رکعت پڑھتے تھے پھربیس رکعت پر قرار ہواجیساکہ مسلمانوں میں رائج ہے۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلددوم صفحہ ۱۷۵)
بیس رکعت تراویح پرصحابۂ کرام کا اجماع ہے جیسا کہ ملک العلماء حضرت علامہ علاؤالدین ابوبکر بن مسعود کاسانی رحمتہ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں(روی عن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ جمع اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی شھررمضان علی ابی بن کعب فصلی بھم فی کل لیلۃ عشرین رکعۃ ولم ینکرعلیہ احدفیکون اجماعا منھم علی ذالک)یعنی مروی ہےکہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رمضان کے مہینے میں صحابہ کرام کوحضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جمع فرمایاتووہ روزانہ صحابہ کرام کو بیس رکعت پڑھاتے تھے اور ان میں سے کسی نےانکارنہیں کیاتوبیس رکعت پرصحابہ کااجماع ہوگیا۔(بدائع الصناع جلداول صفحہ ۱۲۵)
اورعمدۃ القاری شرح بخاری جلدپنجم ص ۳۵۵؍میں ہے( قال ابن عبدالبر وھوقول جمھورالعلماء وبہ قال الکوفیون والشافعی واکثرالفقہاء وھوالصحیح عن ابی بن کعب من غیرخلاف من الصحابۃ )یعنی علامہ ابن عبدالبر نے فرمایا کہ وہ (یعنی بیس رکعت تراویح) جمہورعلماء کاقول ہے علمائے کوفہ،امام شافعی اوراکثرفقہایہی فرماتےہیں اوریہی صحیح ہے ابی ابن کعب سےمنقول ہے اس میں صحابہ کا اختلاف نہیں۔
اورعلامہ ابن حجر نے فرمایا( اجماع الصحابۃ علی ان التراویح عشرون رکعۃ)یعنی صحابہ کااس بات پراجماع ہے کہ تراویح بیس رکعت ہے۔
اورمراقی الفلاح شرح نورالایضاح میں ہے( وھی عشرون رکعۃ باجماع الصحابۃ) یعنی تراویح بیس رکعت ہے اس لئے کہ اس پرصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کااتفاق ہے۔
اورمولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محلی عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح وقایہ جلداول صفحہ۱۷۵؍میں لکھتے ہیں( ثبت اھتمام الصحابۃ علی عشرین فی عھدعمروعثمان وعلی فمن بعدھم اخرجہ مالک وابن سعد والبیھقی وغیرھم ) یعنی حضرت عمر حضرت عثمان اورحضرت علی رضی اللہ عنھم کے زمانے میں اوران کے بعد بھی صحابہ کرام کابیس رکعت پراہتمام ثابت ہے۔ اس مضمون کی حدیث کو امام مالک ،ابن سعداورامام بیہقی وغیرہم نے تخریج کی ہے۔
اورملاعلی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریرفرماتے ہیں( اجمع الصحابۃ علی ان التراویح عشرون رکعۃ) یعنی صحابہ کرام کااس بات پراجماع ہے کہ تراویح بیس رکعت ہے۔(مرقاۃ جلددوم صفحہ ۱۷۵)
بلکہ بیس رکعت جمہورکاقول ہے اوراسی پرعمل ہے جیسا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریرفرماتے ہیں (اکثراہل العلم علی ماروی عن علی وعمروغیرھمامن اصحاب النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عشرین رکعۃ وھو قول سفیان الثوری وابن المبارک والشافعی وقال الشافعی ھکذا ادرکت ببلدنامکۃ یصلون عشرین رکعۃ)یعنی کثیرعلماء کااسی پرعمل ہےجومولاعلی اورحضرت عمراوردیگرصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سےبیس رکعت تراویح منقول ہے اورسفیان ثوری ،ابن مبارک اورامام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھم بھی یہی فرماتے ہیں (کہ تراویح بیس رکعت ہے) اورامام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نےفرمایا کہ ہم نے شہرمکہ معظمہ میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھتے ہوئے پایاہے۔(ترمذی شریف باب قیام شھررمضان صفحہ۹۹)
اورملاعلی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شرح نقایہ میں تحریرفرماتے ہیں (فصار اجماعا لماروی البیہقی باسناد صحیح کانوایقیمون علی عھدعمربعشرین رکعۃ وعلی عہد عثمان وعلی) یعنی بیس رکعت تراویح پرمسلمانوں کااتفاق ہے اس لئے کہ امام بیہقی نےصحیح اسناد سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظم، حضرت عثمان غنی اور حضرت مولاعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے زمانوں میں صحابہ کرام وتابعین عظام بیس رکعت تراویح پڑھاکرتےتھے۔
اورطحطاوی علی مراقی الفلاح صفحہ ۳۲۴؍میں ہے( ثبت العشرون بمواظبۃ الخلفاء الراشدین ماعداالصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہم )یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ دیگر خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی مداومت سےبیس رکعت تراویح ثابت ہے۔
اورعلامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریرفرماتے ہیں( وھی عشرون رکعۃ ھوقول الجمہوروعلیہ عمل الناس شرقاوغربا)یعنی تراویح بیس رکعت ہے۔یہی جمہورعلماء کاقول ہے اور مشرق ومغرب ساری دنیا کے مسلمانوں کااسی پرعمل ہے۔(شامی جلداول صفحہ ۴۷۴)
اورشیخ زین الدین ابن نجیم مصری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ تحریرفرماتے ہیں( ھوقول الجمہورلمافی المؤطا عن یزیدبن رومان قال کان الناس یقومون فی زمن عمربن الخطاب بثلاث وعشرین رکعۃ وعلیہ عمل الناس شرقاوغربا) یعنی بیس رکعت تراویح جمہورعلماء کاقول ہے اس لئے کہ مؤطا امام مالک میں حضرت یزیدابن رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام تیئس رکعت پڑھتے تھے(یعنی بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر) اوراسی پرساری دنیاکے مسلمانوں کاعمل ہے ۔(بحرالرائق جلددوم صفحہ ۶۶)
اورعنایہ شرح ہدایہ میں ہے(کان الناس یصلونھافرادی الی زمن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ فقال عمرانی اری ان اجمع الناس علی امام واحدفجمعہ علی ابی بن کعب فصلی بھم خمس ترویحات عشرین رکعۃ)یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شروع زمانہ خلافت تک صحابہ کرام تراویح الگ الگ پڑھتےتھے بعدہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں ایک امام پرصحابہ کرام کوجمع کرنابہترسمجھتاہوں۔ پھرانھوں نے ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر صحابہ کرام کو جمع فرمایا حضرت ابی ابن کعب نے لوگوں کو پانچ ترویحہ بیس رکعت پڑھائی۔
کفایہ میں ہے(کانت جملتھاعشرین رکعۃ وھذاعندناوعندالشافعی)یعنی تراویح کل بیس رکعت ہے اوریہ ہمارامسلک ہے اوریہی امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کابھی ہے۔
اوربدائع الصنائع جلداول صفحہ۲۸۸؍میں ہے( واماقدروھافعشرون رکعۃ فی عشرتسلیمات فی خمس ترویحات کل تسلمتین ترویحۃ وھذاقول عامۃ العلماء) یعنی تراویح کی تعداد بیس رکعت ہے پانچ ترویحہ دس سلام کےساتھ،ہردوسلام ایک ترویحہ ہےاوریہی عام علماء کاقول ہے ۔
اورامام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریرفرماتے ہیں( وھی عشرون رکعۃ )یعنی تراویح بیس رکعت ہے۔ (احیاءالعلوم جلداول صفحہ ۲۰۱)
اورشرح وقایہ جلداول صفحہ ۱۷۵؍میں ہے (سنن التراویح عشرون رکعۃ) یعنی بیس رکعت تراویح مسنون ہے اور فتاویٰ عالمگیری جلداول مصری صفحہ ۱۰۸؍میں ہے(وھی خمس ترویحات کل ترویحۃ اربع رکعات بتسلمتین کذافی السراجیہ ) یعنی تراویح پانچ ترویحہ ہےہرترویحہ چاررکعت کادوسلام کےساتھ ایساہی سراجیہ میں ہے۔
اورحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریرفرماتے ہیں( عددہ عشرون رکعۃ )یعنی تراویح کی تعداد بیس رکعت ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ جلددوم صفحہ ۱۸؍ماخوذفتاوی فیض الرسول جلداول صفحہ ۳۷۷تا ۳۷۹)
اب مذکورہ دلائل سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تراویح دس رکعت کسی کےزمانے میں نہ تھی۔واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد ابراہیم خاں امجدی
کمپیوژ و ہندی میں ٹرانسلیٹ کے لئے اس پر کلک کریں
واحدی لائبریری کے لئے یہاں کلک کریں
हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔