(رمضان میں وتر امام سری پڑھا دے تو کیا حکم ہے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ رمضان شریف میں وترکی نمازاگر امام نے سرّی پڑھایاتونمازہوگی یانہیں؟
المستفتی:۔محمد افتخارپورنیہ بہار
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
رمضان المبارک کے مہینے میں باجماعت وترکی تینوں رکعات میں قرأت بالجہر واجب ہے لہذاترک واجب پرسجدہ سہوکرے گاجیساکہ نورالایضاح فصل فی واجبات الصلوۃ میںہے’’وجھرالامام بقرأۃ الفجرواولیی العشائین ولوقضائ والجمعۃ والعیدین والتراویح والوترفی رمضان ‘‘اورامام کاجہرکرنافجرکی قرأت میں اورمغرب وعشاء کی پہلی دورکعتوں میں اگرچہ وہ قضاہی ہوں اورجمعہ عیدین تراویح اوررمضان کی وترمیں صورت مسؤلہ میں اگرامام نے وتر کی نماز میںسری قرأت کی توترک واجب کی وجہ سے سہوا پر سجدہ سہو واجب تھا اور عمدا پر واجب الاعادہ اوراگرایسا سہوا ہوا تھا لیکن سجدہ سہو کئے بغیر نماز پوری کرلی تو وقت گزرنے کے بعد بھی ان رکعتوں کا اعادہ واجب ہے جیساکہ علامہ صدرالشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں قصدا واجب ترک کیا تو سجدہ سہو سے وہ نقصان دفع نہ ہوگا بلکہ اعادہ واجب ہے، یونہی اگر سہوا واجب ترک ہوا اورسجدہ سہو نہ کیا جب بھی اعادہ واجب ہے ۔(بہارشریعت جلداول حصہ چہارم صفحہ ۷۰۸دعوت اسلامی )واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمدافسررضا سعدی عفی عنہ
کمپیوژ و ہندی میں ٹرانسلیٹ کے لئے اس پر کلک کریں
واحدی لائبریری کے لئے یہاں کلک کریں
हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें
مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔