(قضا نماز چھوڑ کر نفل پڑھنا کیسا ہے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید کے ذمہ قضانمازیں ہیں لیکن زید جب نمازپڑھتاہے توجس وقت کی نماز پڑھتاہے اس کے ساتھ والی نفل بھی پڑھ لیتا توکیازید پہلے قضاء فرض پڑھے یا نفل؟اگر قضاء فرض نمازیں چھوڑکر نفل پڑھتا توکیا نفل اس کوکوئی فائدہ دے گی یا پہلے جوقضاء نمازیں اسکے ذمہ وہ پڑھے؟
المستفتی:۔ محمدصدیق احمدمشاہدی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
جسکی نماز قضاء ہوں وہ نفل نہ پڑھے بلکہ اپنی قضاء نماز یں ادا کرے کیونکہ جس کے ذمہ فرض نماز یں ہوں اسکی نفل قبول نہیں ہوتی جیسا کہ فتاوی رضویہ شریف میں ہے’’ لما حضر ابابکرن الموتُ دعا عمر فقال اتق اللہ یا عمر واعلم ان لہ عملا بالنھار لا یقبلہ باللیل و عملا باللیل لا یقبلہ بالنھار واعلم انہ لایقبل نافلۃ حتی تؤدی الفریضۃ ‘‘جب خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سیّد ناصدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نزع کا وقت ہوا امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر فرمایا اے عمر!اللہ سے ڈرنا اور جان لو کہ اللہ کے کچھ کام دن میں ہیں کہ انھیں رات میں کرو تو قبول نہ فرمائے گا اور کچھ کام رات میں کہ انھیں دن میں کرو تو مقبول نہ ہوں گے، اور خبردار رہو کہ کوئی نفل قبول نہیں ہوتاجب تک فرض ادا نہ کرلیا جائے ۔(حلیۃ الاولیاء، ذکرالمہاجرین نمبر۱ ابوبکر الصدیق دارلکتاب العربی بیروت۱ ؍۳۶؍فتاوی رضویہ جلد۱۰؍ ص۱۸۳؍دعوت اسلامی )
دیکھئےفرض کا معاملہ اس طرح ہے جیسے زید نے ایک لاکھ روپیہ بکر سے قرض لیا اب زید قرض دینے کے بجائے اس کو تحفہ تحائف پیش کرے یا اسے چائے وغیرہ پلاتا رہے اسی طرح ایک لاکھ سے زائد خرچ کر ڈالے جب بھی اس کا حق ادا نہیں ہو گا کیوں کہ یہ بطور تحفہ دیا ہے اسی طرح نفل پڑھنے سے فرض ادا نہ ہوگا کیوںکہ جس کے ذمہ فرض باقی ہے اس کا نفل قبول نہ ہوگا.اس لئے چاہئے کہ دو رکعت نفل ظہر کی ،چار رکعت عصرکی سنت غیر مؤکدہ، دو رکعت نفل مغرب کی،چار رکعت سنت غیر مؤکدہ عشاءکی، چار رکعت نفل عشاء کی ،نہ پڑھے بلکہ اس کی جگہ قضائے عمری پڑھتا رہے یہ نفل سے بہتر رہے گا اور اس میں بھی تخفیف ہے مکمل طریقہ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے تحریر فرمایا ہے عبارت ملاحظہ ہو۔
قضا ہر روز کی نماز کی فقط بیس رکعتوں کی ہوتی ہے دو فرض فجر کے، چارظہر، چار عصر، تین مغرب، چار عشاء کے تین وتر۔ اور قضا میں یوں نیت کرنی ضرور ہے کہ نیت کی میں نے پہلی فجر جو مجھ سے قضا ہوئی یا پہلی ظہر جو مجھ سے قضا ہوئی، اسی طرح ہمیشہ ہر نماز میں کیا کرے اور جس پر قضا نماز میں بہت کثرت سے ہیں وہ آسانی کے لئے اگریوں بھی ادا کرے تو جائز ہے کہ ہر رکوع اور ہر سجدہ میں تین تین بار سبحان ربی العظیم، سبحان ربی الاعلی کی جگہ صرف ایک بار کہے، مگر یہ ہمیشہ ہر طرح کی نماز میں یاد رکھنا چاہئے کہ جب آدمی رکوع میں پورا پہنچ جائے اس وقت سبحان کا سین شروع کرے اور جب عظیم کا میم ختم کرے اس وقت رکوع سے سر اٹھائے اسی طرح جب سجدوں میں پورا پہنچ لے اس وقت تسبیح شروع کرے اور جب پوری تسبیح ختم کرلے اس وقت سجدہ سے سر اٹھائے۔ بہت سے لوگ جو رکوع سجدہ میں آتے جاتے یہ تسبیح پڑھتے ہیں بہت غلطی کرتے ہیں ایک تخفیف کثرت قضا والوں کی یہ ہوسکتی ہے، دوسری تخفیف یہ کہ فرضوں کی تیسر ی ور چوتھی رکعت میں الحمد شریف کی جگہ سبحان اللہ، سبحان اللہ،سبحان اللہ تین بار کہہ کر رکوع میں چلے جائیں مگر وہی خیال یہاں بھی ضرور ہے کہ سیدھے کھڑے ہو کر سبحان اللہ شروع کریں اور سبحان اللہ پورے کھڑے کھڑے کہہ کر رکوع کے لئے سر جھکائیں، یہ تخفیف فقط فرضوں کی تیسری چوتھی رکعت میں ہے وتروں کی تینوں رکعتوں میں الحمد اور سورت دونوں ضرور پڑھی جائیں، تیسری تخفیف پہلی التحیات کے بعد دونوں درودوں اور دعا کی جگہ صرف اللھم صلی علی محمد والہ کہہ کر سلام پھیردیں چوتھی تخفیف وترکی تیسری رکعت میں دعائے قنوت کی جگہ اللہ اکبر کہہ کر فقط ایک یا تین بار رب اغفر لی کہے۔ (فتاوی رضویہ جلد۸؍ص۱۵۷؍۱۵۸؍دعوت اسلامی) واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔