AD Banner

(پلاسٹک کی ٹوپی پہن کر نمازپڑھنا کیسا ہے؟)

 (پلاسٹک کی ٹوپی پہن کر نمازپڑھنا کیسا ہے؟)

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ 

مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ پلا سٹک کی ٹوپی جو مسجد میں رکھی رہتی ہےاسے پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہے ؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مکروہ تنزیہی ہے اور حوالے میں شامی کی عبا رت پیش کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ کام کاج کے کپڑے میں نماز مکروہ (تنزیہی) ہےتو دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا پلاسٹک کی ٹو پی میں نماز مکروہ تنزیہی ہے ؟بینوا تو جروا

 المستفتی:۔عبد اللہ قادری

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب

  جو ٹوپی مسجد میں نمازیوں کے لئے وقف کی جا تی ہے خواہ وہ پلاسٹک کی ہو یا کپڑے کی اس سے بلا کراہت نماز ہو جاتی ہے۔ 

اولا:۔ یوں کہ جو ٹوپی مسجد میں وقف کی جاتی ہے وہ بازار میں پہن کر جانے کے لئے نہیں اور نہ ہی مہمان کے یہاں پہن کر جانے کے لئےہوتی ہے بلکہ بارگاہ رب العزت میں بوقت نماز پہننے کے لئے ہوتی ہے اور فقہ کا قاعدہ ہے ’’والواقف لا یملک‘‘ پس جب وہ خاص اللہ کی عبا دت کے لئے وقف کی جاتی ہے اور جو چیز خاص عبادت الہی کے لئے وقف کی گئی ہے اس میں نماز مکروہ کیوں ؟جیسے سیوٹر (اونی کپڑہ)نیچے سے موڑ کر پہنا جاتا ہے کیونکہ وہ اسی طرح بنایا گیا ہےجبکہ دیگر کپڑے کوحالت نماز میں موڑ کر پہننے سے نماز مکروہ ہوجا تی ہے مگر سیوٹر کا حکم الگ ہے، یونہی ٹوپی کا معاملہ ہے۔اور یہ دلیل پیش کرنا کہ یہ معزز لوگوں کے پاس پہن کر جانے والی ٹوپی نہیں ہے، بے جا دلیل ہے کیوں کہ مسجد اور بارگاہ الٰہی سے بڑھ کر معزز ہستی یا جگہ اور کون سی ہے؟ 

دوم:۔ اگر بالفرض مان لیا جائے کہ یہ کام کاج کے کپڑوں کے مثل ہے کہ معزز لوگوں کے پاس پہن کر جانے والی ٹوپی نہیں ہے جب بھی بلا کراہت نماز ہو جائے گی اور جو لوگ شامی کی عبارت پیش کرکے تنزیہی کا حکم نافذ کرتے ہیں وہ شاید مکمل عبارت کو سمجھ نہیں  پائے ۔ مکمل عبارت یہ ہے ’’کرہ صلوتہ فی ثیاب بذلۃ (یلبسھا فی بیتہ) (ومھنۃ) ای خدمۃ ان لہ غیرھا‘‘ کام کے کپڑوں میں نماز مکروہ ہے(وہ کپڑے جوگھر میں پہنتا ہے) (اور صنعت کے کپڑوں میں) یعنی خدمت والے، اگر اس کے پاس دوسرے کپڑے ہوں ( درمختار باب مایفسد الصلٰوۃ ومایکرہ فیہا)

  مطلب یہ ہے کہ گھر میں یا کام کاج کے وقت معمولی کپڑے پہنے جاتے ہیں جنہیں پہن کر معززین کے یہاں جانا معیوب سمجھا جاتا ہے، پس اگر دوسرے ایسے کپڑے جو معمولی نہ ہوں موجود ہوں تو معمولی کپڑوں میں نماز مکروہ تنزیہی ہے ، اور اگر دوسرے غیر معمولی کپڑے نہیں تو بلا کراہت انہیں میں نماز درست ہے۔

  دوسرا مطلب یوں لے سکتے ہیں کہ اچھے کپڑے جنہیں پہن کر معززین کے یہاں جانا معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے اگر گھر میں یا کام کاج کے وقت بھی پہنے جائیں تو بھی ان سے نماز بلا کراہت درست ہے  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ گھر میں یا کام کاج میں پہنے جانے والے کپڑے ہیں اس لئے نماز میں کراہت ہوگی، ہرگز نہیں ہوگی۔ہاں ایسے معمولی اور کم حیثیت کے کپڑے جنہیں معززین کے یہاں پہن کر نہیں جایا جا سکتا، انہیں پہن کر دوسرے اچھے اور بیش قیمت کپڑوں کے ہوتے ہوئے نماز میں کراہت تنزیہی ہوگی، اور ٹوپی ان سب سے الگ حکم والی ہے کیونکہ وہ مسجد میں بوقتِ حاضری استعمال کے لئے ہی وقف ہے نہ کہ معززین زمانہ کے یہاں پہن کر جانے کے لئے، اور نہ ہی گھر میں یا کام کاج کے وقت استعمال کرنے کے لئے، پس کراہت کا حکم کیوں؟

    علا مہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں کہ کام کاج کے کپڑوں سے نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے، جب کہ اس کے پاس اور کپڑے ہوں، ورنہ کراہت نہیں۔( بہار شریعت جلد اول حصہ سوم مکروہات کا بیان ص ۶۳۰؍ دعوت اسلامی )

    فتاوی امجدیہ میں ہے:ہر وقت کے پہننے کے کپڑوں میں جس کو ثیاب بذلہ کہتے ہیں نماز پڑھنا جبکہ دوسرے اچھے کپڑے موجود ہوں مکروہ ہے۔(جلد اول ص ۱۹۸)

    یونہی ہاف ٹی شرٹ پہن کر نماز مکروہ تنزیہی ہے لیکن اگر نمازی کے پاس دوسرا کپڑا نہیں تو مکروہ بھی نہیں جیسا کہ علامہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں کہ "جس کے پاس کپڑے موجود ہوں اور صرف نیم آ ستین یا بنیائن پہن کر نماز پڑھتا ہے تو کراہت تنزیہی ہے اور کپڑے موجود نہیں تو کراہت بھی نہیں معاف ہے ۔(فتاوی امجدیہ جلد اول ص ۱۹۳)

    ان مذکورہ بالاعبارات سے ظاہر ہے کہ کام کاج کے کپڑے میں نماز اسی وقت مکروہ ہے جب مصلی کے پاس دوسرا کپڑا ہو ، اور اگر دوسرا کپڑا نہیں ہے تو پھر نماز مکروہ نہیں ۔ یونہی پلاسٹیک کی ٹوپی میں نماز اسی وقت مکروہ ہو گی جب مصلی (نمازی ) کے پاس دوسری ٹوپی اس سے بیش قیمت اور عمدہ ٹوپی موجود ہو۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ مصلی پلاسٹیک کی ٹوپی اسی وقت استعمال کرتا ہے جب اس کے پاس دوسری ٹوپی نہیں ہوتی ہے۔

پس معلوم ہوا کہ نماز بلا کراہت ہو جاتی ہے ۔ہاں بہتر یہ ہے کہ ہر بندہ نماز کے لئے ایک بہتر ٹوپی خود ضرور رکھے تاکہ اس میں نماز ادا کرسکے اور وقفی ٹوپی پہننے کی حاجت ہی پیش نہ آئے ۔ واللہ اعلم بالصواب

کتبہ

فقیر تاج محمد قادری واحدی

الجواب صحیح و المجیب نجیح،

العبد العاصی، سید شمس الحق برکاتی مصباحی( قاضی شرع گووا اسٹیٹ)

الجواب صحیح والمجیب نجیح

محمد عزیزالرحمن رضوی بریلوی( صدرشعبہ افتاءوصدرالمدرسین جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف)



کمپیوژ  و ہندی میں ٹرانسلیٹ کے لئے اس پر کلک کریں

واحدی لائبریری کے لئے یہاں کلک کریں 

हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें 

مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad