(اگر بچے جمعہ کو شرارت کریں تو ان کو بھگانا کیسا ہے؟ )
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں علمائےکرام اس مسئلہ میں کہ جمعہ کے دن بچے شور و غل کرتے ہیں زید کہتا ہے کہ ایسے بچوں کو نہیں لانا چاہئے بکر کہتا ہے کہ لانا چاہئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حوالہ پیش کرتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ جس دن مسجد کے پیچھے سے بچوں کی آواز آنا بند ہو جائے۔الخ ۔زید بھی قانون شریعت کا حوالہ پیش کرتا ہے کون حق پر ہے اور چھوٹے بچوں کو لانا چاہئے کہ نہیں؟
المستفتی:۔ غلام ربانی خان گوبند پور ہزاری باغ جھارکھنڈ، انڈیا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
سوال صاف اور واضح کرنا چاہئے نہ کہ گول مول ۔جمعہ کے دن بچے شوروغل کرتے ہیںاس سے کیا مراد ہے؟اگر اس سے مراد یہ ہے کہ مسجد میں بچے جمعہ کے روز آکر شوروغل کرتے ہیں(اغلب ہے کہ یہی مراد ہے) تو یہ حرام ہے خواہ بچے ہوں یا بڑے جمعہ کا دن ہو یا اور کوئی دن کسی کو کسی وقت مسجد میں یہ حرکت روا نہیں.فتاوی رضویہ میں ہےمسجد میں شوروشر کرنا حرام ہے۔ (ج۳؍ص۶۰۳)
مساجد تو عبادت،تلاوت اور ذکر الٰہی کے لیے ہیں نہ کہ شورو غل کے لئے حدیث شریف میں ہے ’’إنما ھی لذکر اللہ والصلوۃ و تلاوۃ القرآن‘‘یعنی مساجد ذکر الٰہی، نماز اور تلاوت قرآن کے لئے ہیں۔(مسلم شریف،ج۱ص۱۳۸؍باب وجوب غسل البول)
مساجد کو ہر طرح کی آلودگی سے بچانا ضروری ہے اسی لئے شریعت طاہرہ نے ناسمجھ بچوں(جن سے مسجد کی آلودگی کا اندیشہ ہو) کو مسجد میں لانے کی پابندی لگا دی ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے. رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا’’ جنبوا مساجدکم صبیانکم و مجانینکم وشرائکم و بیعکم.الخ مساجد کو بچوں اور پاگلوں اور بیع و شرا سے بچاؤ. (ابن ماجہ،ج۱ص۴۱۵؍ابواب المسا جد)
امام الفقہا سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ یہاں مسجد میں چھوٹے چھوٹے بچے ہر وقت پھرتے رہتے ہیں کبھی صحن میں کبھی حوض میں کنکر پتھر ڈالتے اکثر لوگ اپنے بچوں کو خود ہم راہ لاتے ہیں اکثر نماز ہوتی ہے اور یہ لوگ شور مچاتے ہو تے ہیں اگر کوئی شخص ان کے والدین سے کہتا یا بچوں کو ڈانٹتا ہے تو وہ لوگ لڑنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں؟تو اس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایاجو لوگ مساجد میں اپنے بچوں کو لاتے ہیں یا ان کے بچے جاتے ہیں اور وہ انہیں نہیں روکتے ،روکنے والوں سے لڑتے ہیں گنہگار ہیں اس ارشادحدیث سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی نافرمانی و مخالفت کرتے ہیں.حدیث شریف میں فرمایا جنبوا مساجدکم.۔۔الخ‘‘ غنیہ میں فرمایا یجب أن تصان عن إدخال المجانین والصبیان لغیر الصلوۃ‘‘ واجب ہے کہ مساجد مجنون اور بچوں کو علاوہ نماز کی داخل کرنے سے بچائی جائیں ۔(فتاوی مصطفویہ،ص۲۳۳)
جب نجاست کے خدشے کے پیش نظر ناسمجھ بچوں کا داخلہ مسجد میں ممنوع قرار دیا گیا تو شوروغل کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟مساجد کے احترام کا عالم یہ ہے کہ دنیاوی مباح گفتگو بھی اس میں کرنا جائز نہیں ایسی گفتگو نیکیاں کھا جاتی ہے۔
فتاوی رضویہ میں ہےدنیا کی گفتگو کے لئے مسجد میں جاکر بیٹھنا حرام ہے.اشباہ و نظائر میں فتح القدیر سے نقل فرمایامسجد میں دنیا کے کلام نیکیوں کو ایسا کھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو یہ مباح باتوں کا حکم ہے.(ج۳ص۶۰۲)
فتاوی مصطفویہ میں ہےمسجد میں دنیا کی مباح باتیں کرنا ناجائز ہے دنیوی مباح باتیں مسجد میں کرنا حسنات کو ایسا کھاتا ہے جیسے چوپایہ گھاس..غنیہ میں امام حلبی فرماتے ہیں’’ یجب ان تصان عن حدیث الدنیا۔اھ مختصراً۔ واجب ہے کہ مساجد کی دنیوی باتوں سے صیانت کی جائے.اسی میں ہے’’ والکلام المباح فیہ مکروہ و یاکل الحسنات کما تاکل البھیمۃ الحشیش'' یعنی کلام مباح مسجد میں مکروہ ہے اور وہ حسنات کو اس طرح کھالیتاہے جیسے چوپایہ گھاس کو(ص۲۳۲)
فتاوی امجدیہ میں ہےمسجد کے اندر دنیا کی باتیں کرنا ناجائز ہے ایک روایت میں ہے کہ یہ نیکیوں کو اس طرح کھاتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو(ج۱ص۲۸۵)
بہار شریعت میں ہےمباح باتیں بھی مسجد میں کرنے کی اجازت نہیں نہ آواز بلند کرنا جائز،افسوس کہ اس زمانے میں مسجدوں کو لوگوں نے چوپال بنا رکھا ہے یہاں تک کہ بعضوں کو مسجدوں میں گالیاں بکتے دیکھا جاتا ہے والعیاذ باللہ تعالیٰ (ج ۱ص۶۴۸؍مکتبۃ المدینہ)
مذکورہ بالاحوالہ جات سے معلوم ہوا کہ مسجد میں مباح گفتگو کی بھی اجازت نہیں آواز بلند کرنا جائز نہیں تو پھر شور وغل کیسے جائز ہوسکتا ہے اور خاص بچوں کے مساجد میں لانے،لیجانے کی ممانعت کے متعلق حدیث شریف اور فقہی عبارت اوپر مذکور ہوئی، اس سے یہ بات ظاہر و باہر ہو گئی کہ مساجد میں شوروغل کرنا کسی کو کسی وقت کبھی بھی جائز نہیں بلکہ حرام و گناہ ہے.اور اگر اس کے علاوہ کچھ اور مراد ہو تو اس کی وضاحت کر کے دوبارہ جواب حاصل کیا جائے۔اور بکر جو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منسوب روایت کا حوالہ دیتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ پوری روایت کو مع حوالہ نقل کرے۔
سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ فرماتے ہیںاگر بے علم فتویٰ اتفاقاً صحیح بھی ہو جب بھی توبہ چاہئے نہ کہ محض غلط و باطل، بے علم فتویٰ دینا حرام ہےایسے شخص پر ملائکہ سماوات و أرض لعنت کرتےہیں حدیث میں ارشاد ہوا’’من افتی بغیر علم لعنتہ ملائکۃ السموات والأ رض‘‘ (فتاوی مصطفویہ)واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد معراج احمد قادری مصباحی بستوی
کمپیوژ و ہندی میں ٹرانسلیٹ کے لئے اس پر کلک کریں
واحدی لائبریری کے لئے یہاں کلک کریں
हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें
مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔