(جس مسجد میں جمعہ نا ہو وہاں ظہر کی جماعت کرنا کیسا؟)
السلا م علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلہ میں کہ شہر میں ایک مسجد ہے جس میں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی ہے تو کیا اس مسجد میں جمعہ کے دن ظہر کی نماز اذان واقامت کے ساتھ قائم ہو سکتی ہےاور کثیر جماعت کی حد کیا ہےجلد از جلد جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع دیں
المستفتی: محمد شاہ نواز حسین نوری کرناٹک
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
جس مسجد میں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی اس میں نیز اس میں بھی جس میں ہوتی ہے جمعہ کے روز قبل از نماز جمعہ و بعد نماز جمعہ ظہر کی نماز باجماعت اذان و اقامت کے ساتھ قائم کرنا جائز نہیں بلکہ جو لوگ رہ گئے وہ تنہا تنہا اپنی نماز ظہر ادا کریں اذان و اقامت کے ساتھ قائم نہیں کر سکتے۔جیسا کہ مرکز عقیدت سیدی اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے بحوالہ بحر الرائق و فتاوی ظہیریہ ارشاد فرماتے ہیں: جماعة فاتتھم الجمعة فی المصر فانھم یصلون الظھر بغیر اذان ولا اقامة ولا جماعةتصویر مسئلہ فوت جمعہ سے ہے اور وہ قول توحد پر تو ظاہر۔و علیہ یبتنی تعلیل "الھدایة" لمسٸلةالمعذورین بقولہ : " لما فیہ من الاخلال بالجمعة اذ ھی جامعة للجماعات "مزید فرماتے ہیں حق یہ ہے کہ اس مسجد میں در کنار کسی دوسری مسجد میں بھی جہاں جمعہ نہ ہوتا ہو خواہ مکان یا میدان میں کسی جگہ یہ لوگ(جنہیں نماز جمعہ نہ ملی یا جنہوں نے نہ پڑھی) جمعہ نہیں پڑھ سکتے بلکہ اپنی ظہر تنہا تنہا پڑھیں۔
نیز بحوالہ ’’تنویر الابصار‘‘ و ’’ در مختار‘‘ فرماتے ہیں {کرہ } تحریما {لمعذور و مسجون} و مسافر {ادا ٕ ظہر بجماعة فی مصر } قبل الجمعة و بعدھا لتقلیل الجماعة و صورة معارضة"
اور "رد المحتار" کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں "{قولہ: لمعذور} و کذاغیرہ بالاولی" فانت تعلم انہم احوجہم الی اداء الظہر انہم لا یقدرون علی اقامة الجمعة فارشدوا الی صلاتہا فرادی ۔(فتاوی رضویہ ج ۶ص ۲۲۹؍۳۰؍۳۲مطبوعہ امام احمد رضا اکیڈمی )۔ اور رہا آپ کا جماعت کثیر کا مسئلہ تو اس کے لئے آپ الگ سے سوال بالتفصیل قائم کریں کہ آپ کس تعلق کی جماعت کثیر کے بارے میں سوال کر رہے ہیں۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد ساجد چشتی شاہجہاں پوری
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔