(کیا دیہات میں عید الفطر کی دوجماعت قائم کرسکتے ہیں؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ ہمارے گاؤں میں عید گاہ ہے اور مسجد بھی زید عید گاہ میں چار لوگوں کو لیکر نماز عید الفطرپڑھا ئے گا جیسا کہ وہ مسجدمیں اعلان بھی کرچکا ہے لیکن بکر کا کہنا ہے کہ ہم بھی مسجد میںچار لوگوں کو لیکر عید الفطر کی نماز پڑھائیں گے تو کیا عند الشرع بکر کا مسجد میں عید الفطر کی نماز پڑھنا درست ہے ؟جبکہ ہمیشہ سے عید گا ہ میں عید الفطر وعید الاضحیٰ کی نماز ہو تی تھی ، مذ کورہ مسئلہ کی وضاحت فرما ئیں نوازش ہو گی المستفتی:۔(مولانا ) ہدا یت علی سبحانی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجـواب بعون الملک الوہاب
نماز عید الفطر کے لئے وہی شرطیں ہیں جو نماز جمعہ کے لئے ہیں یعنی مصر یا فنا ئے مصر چونکہ دیہات میں یہ شرط پا ئی نہیں جا تی اس لئے دیہات میں جمعہ وعیدین کی نماز جا ئز نہیں ہے جیسا کہ قدوری میں ہے ’’ ولاتصح الجمعۃ الافی مصر جامع اوفی مصلی المصر ولاتجوز فی القری ‘‘یعنی جمعہ کے لئے شہر کی جامع یاشہر کی عیدگاہ کا ہونا ضروری ہے دیہاتوں میں جمعہ جائز نہیں۔(قدوری باب صلٰوۃ الجمعۃ )
اور سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں’’ الجمعۃ علی اھل القریٰ لیست بواجبۃ لقولہ علیہ الصلوۃ والسلام لا جمعۃ ولا تشریق ولا صلوۃ الفطر ولا اضحی الا فی مصر جامع اوفی مدینۃ عظیمۃ‘‘یعنی جمعہ اہل دیہات پر لازم نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے جمعہ ،تکبیرات تشریق،عید الفطر، عید الاضحی کی نماز صرف جامع شہر یا بہت بڑے شہر میں ہی ہو سکتی ہے ۔(فتاوی رضو یہ جلد ۸؍ص ۴۲۸؍دعوت اسلامی )
اور ایک دوسری جگہ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ ایک دیہات ہے جس کی آبادی تقریباً پانچ سو کے ہے اور اس میں ایک ایسی مسجد ہے کہ اگر اس گاؤں کے مکلفین اس میں جمع ہوں تو مسجد پر نہ ہوگی اور اس کے قریب دودو کوس پر کئی قصبے ہیں تو اس گاؤں میں ازروئے مذہب حنفی نمازِ جمعہ وعیدین جائز ہے یا نہیں؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے جوابا تحریر فرمایا’’باجماع جملہ ائمہ حنفیہ اس میں جمعہ وعیدین باطل ہیں اور پڑھنا گناہ، تمام متون وشروح وفتاوٰی میں ہے ’’شرط صحتھا المصر ‘‘جمعہ کی صحت کے لئے شہر کا ہونا شرط ہے۔( درمختار باب الجمعۃ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱؍۱۰۹)
درمختار میں ہے’’صلٰوۃ العید فی القری تکرہ تحریما لانہ اشتغال بمالا یصح لان المصر شرط الصحۃ‘‘دیہاتوں میں عید کی نماز مکروہ تحریمی ہے کیونکہ یہ ایسے عمل میں مشغول ہونا ہے جو درست نہیں کیونکہ اس کی صحت کے لئے شہرکا ہونا شرط ہے۔( درمختار باب العیدین مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱؍۱۱۴)
خود نہ پڑھیں گے حکم پوچھا جائے گا تو فتوی یہ دیں گے جہاں نہیں ہوتے قائم نہ کریں گے باایں ہمہ اگر عوام پڑھتے ہوں منع نہ کریں گے۔(فتاوی رضو یہ جلد ۸؍ص ۴۳۹؍دعوت اسلامی )
ان مذکورہ عبارات سے ظاہر ہے کہ دیہات میں جمعہ وعیدین کی نماز جا ئز نہیں مگر جہاں لوگ پڑھتے ہوں انہیں منع نہ کیا جا ئے کہ جس طرح اللہ و رسول کا نام لیں غنیمت ہے لہذا جہاں پہلے سے قائم ہے منع نہ کریں مگر اب نئی جگہ(مسجد میں ) قائم کرنے کی اجازت نہ دی جا ئے گی اور بکر کا یہ کہنا کہ ہم بھی مسجد میں جماعت قائم کریں گے سرا سر غلط اور مکروہ تحریمی گنا ہ ہے۔
اگر بالفرض شہر بھی ہو جب بھی بکر کو جماعت کرنے کی اجازت نہ ہو تی کیونکہ جمعہ کی امامت ہر کو ئی نہیں کرسکتا بلکہ اس کے لئے سلطان اسلام یا اس کا نا ئب یا اس کاماذون ہو نا شرط ہے اور اگر ان میں کو ئی نہ ہو تو عام نمازی جسے چاہیں گے وہ امام ہوگا نہ کہ جو چا ہے دو چار لوگوں کے کہنے سے امام بن جا ئے گا جیسا کہ سرکا ر اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ جمعہ و عیدین کا امام ہر شخص نہیں ہو سکتا وہی ہو گا جو سلطان اسلام ہو یا اس کا نا ئب یا اس کاماذون اور ان میں کو ئی نہ ہو تو بضرورت جسے عام نمازی امام جمعہ مقرر کرلیں۔(فتاوی رضو یہ جلد ۸؍ص۴۴۰؍دعوت اسلامی )
بکر کو چا ہئے کہ مسجد میں نماز عیدا لفطر کی جماعت قائم نہ کرے کیونکہ دیہات میں عیدین واجب نہیں اور پڑھنا مکروہ تحریمی و گناہ ہے نیز آنے والے وقت میں ایک فتنہ کا سبب ہوگا اس لئے عید الفطر کے بجا ئے چاشت کی نماز پڑھیں جس میں ثواب ہے اگر چا ہیں تو چاشت کی نماز جماعت سے پڑھا دیں اگر چہ تین سے زائد مقتدی کے ساتھ تداعی طور پر مکروہ ہے مگر تحریمی نہیں بلکہ تنزیہی ہے ۔واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
حقیر محمد علی قادری واحدی
کمپیوژ و ہندی میں ٹرانسلیٹ کے لئے اس پر کلک کریں
واحدی لائبریری کے لئے یہاں کلک کریں
हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔