AD Banner

(دو گھر کے بیچ ۹۲؍کلو میٹر کا فاصلہ ہوتو کیازید مسافرکہلا ئے گا؟)

 (دو گھر کے بیچ ۹۲؍کلو میٹر کا فاصلہ ہوتو کیازید مسافرکہلا ئے گا؟)

  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ

مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید اپنے پریوار والوں کے ساتھ سیتا پور رہتا تھا اور بریلی میں رہ کر پڑھائی کرتا تھا اور اب اس وقت زید اپنے پریوار والوں کے ساتھ دہلی میں رہتا ہے اور بریلی میں رہ کر پڑھائی کرتا ہے یعنی اس کا گھر سیتاپور میں بھی ہے اور دہلی میں بھی تو جب زید بریلی سے سیتا پور جائے گا یا دہلی جائے گا تو وہ دونوں جگہیں مقیم کہلائے گا یا صرف ایک جگہ یا اس پر مسافر کے کیا احکام جاری ہونگے ؟تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔       المستفتی:۔ محمد ہاشم غلام ازہری

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون الملک الوہاب 

   جب زید بریلی سے سیتا پور اور دہلی جائے گا تو مقیم ہوجائے گا اس لئے کہ سیتا پور اور دہلی دونوں وطن اصلی کے حکم میں ہے۔سوال میں یہی ظاہر ہے اور وطن اصلی  میں زید مقیم ہوگا۔ وہاں قصر نہیں کرے گا۔ کیونکہ دونوں وطن اصلی ہیں۔اب وہ سیتا پور یا دہلی آئے گا تو مقیم ہی رہے گا۔اگر پہلی جگہ بچے موجود ہیں تو وطن اصلی ہے ورنہ پہلی جگہ وطن اصلی نہیں جیسا کہ حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ والرضوان نے ارشاد فرمایا،، ایک جگہ آدمی کا وطن اصلی ہے اب اس نے دوسری جگہ وطن اصلی بنایا اگر پہلی جگہ بال بچے موجود ہوں تو دونوں اصلی ہیں ورنہ پہلا اصلی نہ رہا خواہ ان دونوں جگہوں کے درمیان مسافت سفر ہو یا نہ ہو۔(بہارشریعت جلداول حصہ چہارم صفحہ۸۳)

  لیکن اگر اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر دوسری جگہ چلا گیا اور پہلی جگہ مکان و اسباب وغیرہ باقی ہیں تو وطن اصلی ہے۔( فتاوی عالمگیری )

جیسا کہ بہار شریعت میں ہےکہ( وطن اصلی )وہ جگہ جہاں اس کی پیدائش ہے یا اس کے گھر کے لوگ وہاں رہتے ہیں یا وہاں سکونت کرلی ہے اور یہ ارادہ ہے کہ یہاں سے نہ جائے گا(وطن اقامت ) وہ جگہ ہے جہاں مسافر نے پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کاارادہ کیا۔ (  بہارشریعت جلداول حصہ چہارم صفحہ۸۳)

  مسافر جب اپنے وطن اصلی میں پہنچ گیا تو سفرختم ہوگیا اگرچہ اقامت کی نیت نہ کی ہو،حضور شیخ الشیوخ علامہ الشیخ علاء الدین محمد بن علی حصکفی رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشادفرمایا’الوطن الاصلی موطن ولادتہ او تاھلہ اوتؤطنہ ‘

  اور اسی عبارت کی شرح میں حضورسیدالفقہاء علامہ سید محمد امین الشہیر ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ والرضوان نے ارشادفرمایا’’قولہ اوتاھلہ ای تزوجہ وقولہ اوتؤطنہ ای عزم علی القرار فیہ وعدم الارتحال وان لم یتاھل‘‘(ردالمحتار جلداول صفحہ ۵۳۲؍بحوالہ ا فتاویٰ فیض الرسول جلداول صفحہ۳۹۰)

  لہذا زید کیلئے سیتاپور اور دہلی جو وطن اصلی کے حکم میں ہے وہاں وہ مقیم ہوگیا اگر سیتا پور سے سب دہلی آگئے ہیں اور سیتا پور میں اب کچھ نہیں ہے تو سیتا پور وطن اصلی نہ رہا۔اگر مکان و اسباب باقی ہے تو وطن اصلی ہے۔اگر دہلی میں خود کی زمین مکان نہیں تو وہ وطن اصلی نہیں۔جو وطن اصلی ہے وہاں قصر نہیں۔اور جو وطن اقامت ہے وہاں وقت متعینہ کا حکم ہوگا ۔واللہ اعلم بالصواب 

کتبہ

العبد محمد عتیق اللہ صدیقی فیضی یارعلوی ارشدی عفی عنہ 




کمپیوژ  و ہندی میں ٹرانسلیٹ کے لئے اس پر کلک کریں

واحدی لائبریری کے لئے یہاں کلک کریں 

हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें 

مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 



Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad