(مسافر کے پیچھے مقیم بقیہ دورکعت کیسے پڑھے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ مسافر امام کے پیچھے مُقیم مقتدی اپنی بقیہ دو رکعتیں کیسے مکمل کرے گا ؟یعنی قیام و رکوع و قومہ و سجود و قعدہ میں کیا کچھ پڑھے گا اور کیا نہیں پڑھے گا ؟
المستفتی:۔ محمّد ارشدی پاکستان
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
اگر مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدی نماز پڑھ رہا ہو تو مسافر امام جب سلام پھیرے تو مقیم مقتدی کھڑا ہو جائے اور اپنی باقی دو رکعتیں پڑھ لے، ان دو رکعتوں میں قراء ت بالکل نہ کرے بلکہ اتنی دیر خاموش کھڑا رہے جتنی دیرمیں سورۂ فاتحہ پڑھی جاتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حکماً وہ امام ہی کی اقتداء میں ہوتا ہے اور امام کی اقتداء میں مقتدی پر قراء ت نہیں ہے البتہ رکوع اور سجود کی تسبیحات اور تکبیراتِ انتقال کہے گا۔طحطاوی میں ہے: "اقتدى مقيم بمسافر "صح" الاقتداء "فيهما" أي في الوقت وفيما بعد خروجه لأنه صلى الله عليه وسلم صلى بأهل مكة وهو مسافر وقال: "أتموا صلاتكم فإنا قوم سفر" وقعوده فرض أقوى من الأول في حق المقيم ويتم المقيمون منفردين بلا قراءة". (حاشية الطحطاوي علی مراقي الفلاح باب الامامة ۱/۲۹۲ ط: دارالکتب العلمیة)
اورفتاوی شامی میں ہے: وصح اقتداء المقیم بالمسافر في الوقت، وبعده فإذا قام المقیم إلی الإتمام لایقرأ، ولایسجد للسهو في الأصح؛ لأنه کاللاحق (ردالمحتار علی الدرالمختار، كتاب الصلاة ، باب صلاة المسافر ۲/۱۲۹)واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
غلام محمد صدیقی فیضی ارشدی عفی عنہ
کمپیوژ و ہندی میں ٹرانسلیٹ کے لئے اس پر کلک کریں
واحدی لائبریری کے لئے یہاں کلک کریں
हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें
مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔