AD Banner

(چلتی ٹرین میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟)

 (چلتی ٹرین میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ چلتی ٹرین میں نماز پڑھنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ رہنمائی فرمائیں حضور بہت مہربانی ہوگی

المستفتی:۔  محمد انور خان رضوی علیمی پتہ شراوستی یوپی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون الملک والوہاب

  چلتی ہوئی ٹرین میں نفل نماز ہوسکتی ہے، لیکن فرض، واجب اور سنت فجر نہیں ہوسکتی ہے، لہٰذا جب اسٹیشن پر گاڑی ٹھہرے اُس وقت یہ نمازیں پڑھی جائیں، ہاں اگر نماز کا وقت ختم ہونے والا ہو، تو جس طرح بھی ممکن ہو، ان نمازوں کو پڑھ لیا جائے، اور پھر موقع ملنے پر لوٹا لیا جائے۔ چنانچہ امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان حنفی متوفی۱۳۴۰ھ لکھتے ہیں:ٹھہری ہوئی ریل میں سب نمازیں جائز ہیں اور چلتی ہوئی میں سنّتِ صبح کے سوا سب سنّت ونفل جائز ہیں مگر فرض ووتر یا صبح کی سنتیں نہیں ہوسکتیں اہتمام کرے کہ ٹھہری میں پڑھے اور دیکھے کہ وقت جاتا ہے پڑھ لے اور جب ٹھہرے پھر پھیرے۔(فتاوی رضویہ،کتاب الصلاۃ،۱۱۳/۵،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن،لاہور) 

    ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:فرض اور واجب جیسے وتر و نذر اور ملحق بہ یعنی سنّتِ فجر چلتی ریل میں نہیں ہوسکتے اگر ریل نہ ٹھہرے اور وقت نکلتا دیکھے، پڑھ لے پھر بعدِ استقرار اعادہ کرے۔(فتاوی رضویہ،۱۳۶/۶۔۱۳۷،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن،لاہور)  

   اور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی۱۳۶۷ھ لکھتے ہیں:چلتی ریل گاڑی پر بھی فرض وواجب وسنّتِ فجر نہیں ہوسکتی، اور اس کو جہاز اور کشتی کے حکم میں تصور کرنا غلطی ہے کہ کشتی اگر ٹھہرائی بھی جائے جب بھی زمین پر نہ ٹھہرے گی اور ریل گاڑی ایسی نہیں اور کشتی پر بھی اسی وقت نماز جائز ہے جب وہ بیچ دریا میں ہو کنارہ پر ہو اور خشکی پر آسکتا ہو تو اس پر بھی جائز نہیں ہے، لہٰذا جب اسٹیشن پر گاڑی ٹھہرے اُس وقت یہ نمازیں پڑھے اوراگر دیکھے کہ وقت جاتا ہے تو جس طرح بھی ممکن ہو پڑھ لے پھر جب موقع ملے اعادہ کرے کہ جہاں مِن جہۃ العباد (یعنی بندوں کی طرف سے) کوئی شرط یا رکن مفقود ہو(یعنی نہ پایا گیا ہو) اُس کا یہی حکم ہے۔(بہارِ شریعت،سنن ونوافل کا بیان،حصہ چہارم،۶۷۳/۱،مطبوعہ:مکتبۃ المدینہ،کراچی) 

   اور فقیہ اعظم ہند مفتی محمد شریف الحق امجدی حنفی متوفی۱۴۲۰ھ لکھتے ہیں:ریل گاڑی، بس اگر پلیٹ فارم پر یا کہیں کھڑی ہے تو اس میں نماز صحیح ہے، اور اگر چل رہی ہے تو اس میں نماز درست نہیں۔ اس لیے کہ استقرار علی الْارض (یعنی زمین پر ٹھہراؤ) نہیں پایا گیا۔ اگر یہ اندیشہ ہو کہ نماز قضا ہوجائے گی تو چلتی ٹرین میں نماز پڑھ لے، پھر اعادہ کرے۔ اس لئے کہ ٹرین سے اترنا بہ آسانی ممکن ہے اور اترے گا تو نماز پڑھنے کے لائق زمین ملے گی، مگر چلتی ٹرین سے اترنا ناممکن ہے، مگر یہ دشواری سماوی نہیں، خود بندوں کی طرف سے ہے، اس لیے چلتی ٹرین میں جو نمازیں پڑھیں، اُن کا اعادہ واجب ہے۔(نزھۃ القاری شرح صحیح البخاری،کتاب الصلاۃ،۹۷/۲،مطبوعہ:فرید بُک اسٹال،لاہور) 

    اور فقیہ ملّت مفتی جلال الدین احمد امجدی حنفی متوفی۱۴۲۲ھ لکھتے ہیں:چلتی ہوئی ٹرین میں نفل نماز پڑھنا جائز ہے مگر فرض، واجب اور سنّتِ فجر پڑھنا جائز نہیں۔ اسلئے کہ نماز کے لئے شروع سے آخر تک اتحادِ مکان اور جہتِ قبلہ شرط ہے، اور چلتی ہوئی ٹرین میں شروع نماز سے آخر تک قبلہ رخ رہنا اگرچہ بعض صورتوں میں ممکن ہے، لیکن اختتامِ نماز تک اتحادِ مکان یعنی ایک جگہ رہنا کسی طرح ممکن نہیں، اس لئے چلتی ہوئی ٹرین میں نماز پڑھنا صحیح نہیں۔ ہاں اگر نماز کے اوقات میں نماز پڑھنے کی مقدار ٹرین کا ٹھہرنا ممکن نہ ہو، تو چلتی ہوئی ٹرین میں نماز پڑھ لے، پھر موقع ملنے پر اعادہ کرے۔ (فتاوی فیض الرسول،نماز کی شرطوں کا بیان،۲۳۶/۱،مطبوعہ:شبیر برادرز،لاہور)واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 

کتبہ

محمد اُسامہ قادری


کمپیوژ  و ہندی میں ٹرانسلیٹ کے لئے اس پر کلک کریں

واحدی لائبریری کے لئے یہاں کلک کریں 

हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें 

مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 



Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad