AD Banner

{ads}

(مصیبت کے وقت جزع فزع کرناکیساہے ؟)

  (مصیبت کے وقت جزع فزع کرناکیساہے ؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 

مسئلہ:۔کیا فرما تے ہیں علما ئے کرام اس مسئلہ میں کہ بیماری یا مصیبت مثلا انتقال کے وقت جزع وفزع کرنا کیسا ہے ؟اور اگر کوئی صبر کرے تو اس کیے لئے کیاا جر ہے؟بینوا تو جروا

المستفتی:۔غیاث الدین عرب 

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکا تہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون الملک الوہاب

بیما ری یا انتقال کے وقت جزع وفزع نہیں کرنی چاہئے بلکہ بندے کو اس وقت صبر کرنا چا ہئے کیونکہ بیماری بھی اللہ رب العزت کی ایک بڑی نعمت ہے اسکے منا فع بے شمار ہیں اگرچہ آدمی کو بظاہر اس سے تکلیف پہو نچتی ہے مگر حقیقتہً راحت وآرام کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہاتھ آتا ہے یہ ظاہری بیماری جس کو آدمی بار اور عیب سمجھتا ہے حقیقت میں رو حانی بیماریوں کا ایک بہت بڑا زبر دست علا ج ہے حقیقی بیماری امراض روحانیہ ہیں کہ یہ بہت خوفناک چیز ہے اور اسکومرض مہلک سمجھنا چاہئے۔

 بہت موٹی سی بات ہے جو ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی غافل ہو مگر جب مرض میں مبتلاہوتا ہے تو کس قدر خدا کو یاد کرتا ہے اور توبہ و استغفار کرتا ہے اور اللہ والو ں کی شان تو یہ ہوا کر تی ہے کہ وہ تکلیف کا بھی اسی طرح استقبال کرتے ہیں جیسے راحت کا ،مگر ہمیں توکم از کم اتنا تو چا ہئے کہ صبرواستقلال سے کام لیں اور جزع و فزع کر کے آئے ہوئے ثواب کو نہ جانے دیں۔اور اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ بے صبری سے آئی ہوئی مصیبت جاتی نہ رہے گی پھر اس بڑے ثواب سے محرو می دوہری مصیبت ہے ۔بہت سے نادان بیماری میں نہا یت بے جا کلمات بول پڑتے ہیں ۔بلکہ بعض تو کفری کلمات بول جاتے ہیں (معاذاللہ) بعض لوگ اللہ عزوجل کی طرف ظلم کی نسبت کر کے  خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰ خِرَۃَ کے مصداق بن جا تے ہیں لہٰذا مصیبت کے وقت صبر کرنا چاہئے۔

  صبر کے بہت فوائد ہیں ان میں سے کچھ درج ہیں۔

(۱)نبی کریم  ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب میرے بندوں میںسے کو ئی بندہ بدن ،مال ،اور اولاد کی مصیبت میں  مبتلا ہو اور صبر جمیل اختیار کرے تو اسکے اعمال تولنے اور نامہ اعمال کھول کر دیکھنے میں مجھے شرم آئے گی ۔(نزہۃالمجا لس مترجم ،جلد اول صفحہ۳۱۱)

(۲)حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں روز قیا مت صابرین کو پکارا جائے گا کہ وہ کھڑے ہو جا ئیں کچھ لو گ کھڑے ہوںگے تو انہیں ارشاد ہو گا جنت میںچلے جائو ان سے فرشتے پوچھیں گے کہاں جا رہے ہو وہ کہیں گے جنت میں۔ فرشتے کہیںگے حساب سے پہلے؟صبر کرنے والے کہیںگے ہاں ۔ ہم نے اپنے دل کواللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رکھا اور خوا ہشات نفسانیہ کو ٹھکرایا اور مصائب وآلام میں  صبر کیا۔ فرشتے کہیں گے چونکہ تم لوگو ںنے صبرو استقامت کو قائم رکھا تم پر سلام ہو تمہارے لئے عقبیٰ کا گھر اچھا ہے۔ (نذہۃالمجا لس مترجم،جلد اول صفحہ۳۱۲)

(۳)حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عر ض کیا الٰہی !تجھے جنت کے منا زل میںسب سے بڑھ کر کون سی منزل پیاری ہے ؟ارشاد ہواخطیرہ قُدس ،پھر پوچھا گیا اس میںکون رہیں گے ؟ارشاد ہوا مصیبت زدہ ۔عرض کیامولیٰ !وہ کون لوگ ہیں ؟ فر ما یا وہ وہی لوگ ہیں جنھیں میں مصائب و آلام میںمبتلا کرتا ہو ں تو وہ صبر کر تے ہیںجب انھیں کو ئی نعمت دیتا ہوںتو وہ شکر بجالاتے ہیں اور جب ان پر ابتلائو آزمائش کا مرحلہ آجاتا ہے تو پکا راٹھتے ہیں’’ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیہِ راجِعُو ن‘‘  (نذہۃالمجا لس مترجم،جلد اول صفحہ۳۱۴)

حدیث شریف میں ہے’’عَنْ محمدِبْنِ خَا لِدِ نِ السُّلَمِیِّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَال رَسو ل اللّٰہ  ﷺ اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا سَبَقَتْ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ مُنْزِلَۃٌ لَمْ یَبْلُغَھَا بِعَمْلِہٖ اِبْتِلَا ہُ اَللّٰہُ فِی جَسَدِہٖ اَوْ فِی مَا لِہٖ اَوْ فِی وَلَدِہٖ ثُمَّ صَبَّرَ ہٗ عَلیٰ ذٰلِکَ حَتّٰی یُبَلَّغَہُ الْمَنْزِلَۃَالَّتی  سَبَقَتْ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ ‘‘روایت ہے حضرت محمدا بن خا لد سُلمی سے وہ اپنے با پ سے وہ اپنے دادا سے، راوی فر ما تے ہیں حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فر ما یا کہ جب کسی بندہ کے لئے کو ئی در جہ رب کی طرف سے مقدر ہو چکاہو جہاں تک وہ اپنے عمل سے نہیں پہو نچ سکتا تو اللہ اس کے جسم یا مال یا اولاد کو آفت میں مبتلا کر دیتا ہے  پھراسے اس پر صبر بھی دیتا ہے یہاں تک کہ وہ درجہ تک پہونچ جا تا ہے جو رب کی طرف سے اس کے لئے مقدر ہو چکا ہے ۔(سنن ابی داؤد ، کتاب الجنا ئز مشکوٰۃباب عیا دۃ المریض الفصل الثا نی ۱۳۷ )

مسلم شریف میں حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ابوطلحہ (رضی اللہ عنہ) کا بیٹا بیمار تھا ابوطلحہ (رضی اللہ عنہ) کہیں باہر تشریف لے گئے تو بچہ فوت ہوگیا جب ابوطلحہ( رضی اللہ عنہ) واپس آئے تو پوچھا میرے بیٹےکا کیا حال ہے ام سلیم نے کہا وہ پہلے سے افاقہ میں ہے پھر انہیں شام کا کھانا پیش کیا ابوطلحہ (رضی اللہ عنہ) نے کھانا کھایا پھر اپنی بیوی سے صحبت کی جب فارغ ہوئے تو ام سلیم نے کہا بچے کو دفن کردو جب صبح ہوئی تو ابوطلحہ (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکراس کی خبر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نے رات کو صحبت بھی کی تو انہوں نے عرض کیا جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ان دونوں کے لئے برکت عطا فرمایا چنانچہ ام سلیم کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو ابوطلحہ (رضی اللہ عنہ) نے مجھے کہا کہ اسے اٹھا کر نبی ﷺ کی خدمت میں لے جاؤ (حضرت)انس(رضی اللہ عنہ) اسے نبی ﷺ کی خدمت میں لائے اور ام سلیم نے کچھ کھجوریں بھی ساتھ بھیج دیں نبی ﷺ نے بچہ کولے کو فرمایا کیا اس کے ساتھ کوئی چیز بھی ہے صحابہ نے عرض کیا جی ہاں کھجوریں ہیں آپ ﷺ نے انہیں لے کر چبایا پھر اس کے تالو سے لگایا اور ان کھجوروں کو بچہ کے منہ میں ڈال دیا۔(مسلم شریف حدیث نمبر۵۶۱۳)

مسلم شریف کی حدیث سے معلوم ہوا کی حضرت ام سلیم نے جزع وفزع نہیں کیا بلکہ اپنے شوہر کی اطاعت بجا لا ئیں اور اللہ کی رضا پر راضی رہیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر اولاد صالح عطا فرمایا یہ ہے صبر کا پھل لہذا مسلمانوں کو چا ہئے کہ جب اللہ تعالیٰ کو ئی نعمت دے تو اس کا شکر بجا لائیں اور اگر کو ئی مصیبت آئے تو صبر سے کام لیں۔  واللہ تعا لی اعلم بالصواب

کتبہ

فقیر تاج محمد قادری واحدی





مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں 

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads