AD Banner

(حق گوئی اللہ والوں کا شیوہ ہے )

 (حق گوئی اللہ والوں کا شیوہ ہے )


حضرت سیدنا علاء بن کَرِیز علیه رحمة الله العزیز، بیان کرتے ہیں: خلیفہ سلیمان بن عبد الملک بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے پاس سے ایک شخص گزرا جو قیمتی لباس زیب تن کئے ہوئے شاہانہ انداز سے چل رہا تھا۔ سلیمان نے درباریوں سے کہا: " غالباً یہ عراق کے شہر کوفہ کا رہنے والا ہے اور اس کا تعلق قبیلہ ہمدان سے ہے۔ پھر حکم دیا کہ اس شخص کو میرے پاس لاؤ۔ جب اسے لایا گیا تو اس سے پوچھا: "تم کون ہو ؟“ اس نے کہا: ”ذرا ٹھہرو ، سانس تو لینے دو۔ خلیفہ کے کہنے پر اسے کچھ مہلت دی گئی اور پھر اس کے علاقے اور قبیلے کے بارے میں پوچھنے پر اس نے عراق کے شہر کوفہ اور قبیلہ ہمدان کا نام لیا تو خلیفہ کی تشویش مزید بڑھ گئی اور پوچھا: ”حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں تمہارا کیا عقیدہ ہے ؟“ اس نے جواب دیا: ” بخدا! میں نے ان کا زمانہ پایا نہ انہوں نے میرا، لوگوں نے ان کی اچھائی بیان کی ہے اور ان شاء اللہ وہ ایسے ہی ہیں۔ “ پھر پوچھا: ”حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں کیا عقیدہ ہے ؟ “ اس نے کہا: ”وہی جو حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں رکھتا ہوں۔“ خلیفہ نے حضرت سیدنا عثمان غنی رھی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: "الله عزوجل کی قسم ! میں نے ان کا زمانہ پایا نہ انہوں نے میرا، بعض لوگ ان کی اچھائی بیان کرتے ہیں اور بعض نے ان کے بارے میں نازیبا باتیں کی ہیں لیکن ان کا حال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ “ پھر خلیفہ نے حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجھه الکریم کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: " بخدا ، وہ بھی حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح ہیں۔ پھر خلیفہ نے حضرت سیدنا على المرتضى كرم اللہ تعالى وجھه الکریم کو برا بھلا کہنے کو کہا تو اس نے کہا: "خد عزوجل کی قسم! میں ان کے بارے میں برا نہیں کہوں گا۔ “ خلیفہ نے اسے دھمکاتے ہوئے کہا: " بخدا! تم انہیں برا نہ کہو گے تو میں تمہاری گردن اڑا دوں گا۔ لیکن وہ شخص اپنی بات پر قائم رہا۔ پھر خلیفہ نے اس کی گردن اڑا دینے کا حکم دیا تو ایک شخص کھڑا ہوا جس کے ہاتھ میں تلوار تھی، اس نے تلوار کو زور سے ہلایا تو وہ اس کے ہاتھ میں کھجور کے پتے کی طرح چمکنے لگی، اس نے کہا: ”خدا کی قسم ! تم انہیں برا نہ کہو گے تو میں تمہاری گردن اڑا دوں گا۔ وہ شخص اب بھی اپنی بات پر قائم رہا اور سلیمان کو پکارا : " افسوس ہے تجھ پر مجھے اپنے پاس آنے دے۔ “خلیفہ نے اسے اجازت دی تو اس نے کہا: "اے سلیمان ! کیا تو میری وہ التجا قبول نہیں کر سکتا جو تجھ سے بلند مرتبہ ہستی نے قبول فرمائی اور التجا کرنے والا مجھ سے افضل تھا لیکن جن کے بارے میں التجا کی گئی تھی حضرت سیدنا علی المرتضی کرم الله تعالى وَجْهَهُ الکریم کی شان ان سے کہیں زیادہ ہے ؟ خلیفہ نے پوچھا: " تمہارا مطلب کیا ہے ؟“ اس نے کہا: حضرت سیدنا عیسی رُوح الله عليه السلام جو کہ مجھ سے افضل ہیں وہ جب اللہ عزوجل کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے:اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ:اگر تو انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی ہے غالب حکمت والا ۔( المائدة : ۱۱۸)
تو اللہ عزوجل نے ان کی التجا بنی اسرائیل کے حق میں قبول فرمائی جن کے مقابلے میں حضرت سیدناعلی المرتضی کرم اللہ تَعَالى وَجْهَهُ الکریم کی شان بلند ہے۔ حضرت سیدنا علاء بن کریز علیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں: میں نے سلیمان کے غصے کو کم ہوتا دیکھا حتی کہ سارا غصہ ختم ہو گیا۔ پھر سلیمان نے کہا: ” انہیں جانے دو۔ چنانچہ وہ لوٹ گئے۔ میں نے ہزاروں لوگ دیکھے مگر اس جیسا شخص نہ دیکھا اور وہ حضرت سیدنا طلحہ بن مُصَرٌِف رحمه الله تعالیٰ مدینہ تھے۔(حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء " المعروف " اللہ والوں کی باتیں جلد 5صفحہ 21 مکتبہ دعوت اسلامی)

(طالب دعا)
محمد معراج رضوی واحدی براہی سنبھل یوپی ہند







Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad