(اللہ تعالیٰ کو حاضر وناظر کہنا کیسا ہے؟)
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُمسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اللہ تعالی کو حاضر وناظر کہنا کیسا ہے؟ مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں مہر بانی ہوگی
المستفتی:۔محمد شاھد رضا نیپالی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
حاضر و ناظر خدائے تعالی کے اسمائے توقیفیہ میں سے نہیں ہیں اور ان الفاظ کے بعض معانی شان الوہیت کے خلاف ہیں اس لئے اللہ تعالی کو حاضر و ناظر نہیں کہنا چاہئے لیکن اگر کسی نے کہا تو کفر نہیں البتہ بہتر ہے کہ رب تعالی کی بارگاہ میں توبہ کرلے جیسا کہ در مختار مع رد المحتار میں ہے کہ يا حاضر يا ناظر ليس بكفر اھ
اس عبارت کے تحت رد المحتار میں ہے کہ فان الحضور بمعنى العلم شائع ( كما قال الله تعالى ) مَا یَکُوۡنُ مِنۡ نَّجۡوٰی ثَلٰثَة اِلَّا هوَ رَابِعُهمۡ و النظر بمعنى الروية ( كما قال الله تعالى ) ألم يعلم بان الله يرى . فالمعنى يا عالم يا من يرى بزازية " اھ(در مختار مع رد المحتار جلد 3 صفہ 336/337/ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
اسی طرح سے صاحب وقارالفتاوی مفتی وقار الدین قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ حاضر و ناظر کے جو معنی لغت میں ہیں ان معانی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی ذات پر ان الفاظ کا بولنا جائز نہیں ہے۔”حاضر “کا معنی عربی لغت کی معروف و معتبر کتب المنجداور مختار الصحاح وغیرہ میں یہ لکھے ہیں: نزدیکی، صحن، حاضر ہونے کی جگہ، جو چیز کھلم کھلا بے حجاب آنکھوں کے سامنے ہو ، اسے حاضر کہتے ہیں اور ” ناظر “ کے معنی مختار الصحاح میں آنکھ کے ڈھیلے کی سیاہی ، جبکہ نظر کے معنی ”کسی امر میں تفکر و تدبر کرنا ، کسی چیز کا اندازہ کرنا اور آنکھ سے کسی چیز میں تامل کرنا“لکھے ہیں ۔ ان دونوں لفظوں کے لغوی معنی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کو پاک سمجھنا واجب ہے ۔ بغیر تاویل ان الفاظ کو اللہ تعالیٰ پر نہیں بولا جا سکتا ۔ اسی لیے اسماء حُسنیٰ میں حاضر و ناظر بطور اسم یا صفت شامل نہیں ہیں۔ قرآن و حدیث میں یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لیے آئے ہیں اور نہ ہی صحابہ کرام اور تابعین یا ائمہ مجتہدین نے یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کیے ہیں ۔( وقار الفتاوی، جلد1، صفحہ66، مکتبہ گلستان مصطفے کراچی)
فتاوی فیض الرسول میں ہے کہ اگر حاضر و ناظر بہ معنی شہید و بصیر اعتقاد رکھتے ہیں ۔ یعنی ہر موجود اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے اور وہ ہر موجود کو دیکھتا ہے ، تو یہ عقیدہ حق ہے ، مگر اس عقیدے کی تعبیر لفظِ حاضر و ناظر سے کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں حاضر و ناظر کالفظ استعمال کرنا نہیں چاہیے ، لیکن پھر بھی کوئی شخص اس لفظ کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بولے ، تو وہ کفر نہ ہوگا۔ (فتاوی فیض الرسول، جلد1، صفحہ3، مکتبہ شبیر برادرز )
اور علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ اللہ عزوجل کو حاضر و ناظر کہنے والا کافر تو نہیں ، مگر اللہ عزوجل کو حاضر و ناظر کہنا منع ہے کہ اللہ عزوجل کے اسما توقیفی ہیں یعنی شریعت نے جن اسما کا اطلاق باری تعالیٰ پر کیا ہے ، اسی کا اطلاق درست اور جن اسما کا اطلاق نہیں فرمایا ، ان سے احتراز چاہیے۔(فتاوی شارح بخاری، جلد1، صفحہ 305، مکتبہ دائرہ البرکات گھوسی)واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد راحت رضا نیپالی
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔