(عورت طلاق کادعوٰی کرےاور شوہر انکار کرےتو کیاحکم ہے؟)
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُمسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت کہ رہی ہے کی میرے شوہر نے مجھے طلاق دیدیا ہے جب شوہر سے معلوم کیاگیا تو وہ انکار کر رہاہےتو ایسی صورت میں طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ مع حوالہ جواب عنایت فرما ئیں
المستفتی:۔ محمد پیغام رضا بانکا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجـواب بعون الملک الوہاب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجـواب بعون الملک الوہاب
عورت اگر اپنے دعوے پر گواہ شرعی پیش کرے تو عورت کا قول معتبر ہوگا اور طلاق واقع ہو جائےگی اور اگر عورت گواہ نہ پیش کر سکے تو شوہر سے قسم کھلایا جائے اور وہ قسم کھا لے تو طلاق واقع نہ ہوگی اور اگر شوہر قسم کھانے سے انکار کردے۔حدیث پاک میں ہے :عن عبدالله بن عباس لو يُعطى النّاسُ بدَعواهم لادَّعى رجالٌ أموالَ قَومٍ ودماءَهم لَكنَّ البيِّنةَ على المدَّعي واليمينَ على من أنكَرَ "
ملا علي قاري (ت۱٠١٤)، شرح مسند أبي حنيفة ٧٨ إسناده حسن أخرجه البخاري (٤٥٥٢)، ومسلم (١٧١١) بنحوه، والبھیقی (٢١٧٣٣) واللفظ له )یعنی لوگ اگر اپنے دعوی پر دے دیے جائیں تو لوگوں کے مال اور خون کا دعوی کر بیٹھیں لیکن (ایسا نہیں ہے بلکہ) دعوی کرنے والے کے ذمہ گواہ پیش کرنا ہے اور انکار کرنے والے کے ذمہ قسم کھانا ہے۔
سیدی سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ اسی طرح کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں بحالت اختلاف طلاق کا ثبوت گواہوں سے ہوگا اور دو۲ گواہ عادل شرعی شہادت بروجہ شرعی ادا کریں کہ اس شخص نے اپنی زوجہ کو طلاق دی طلاق ثابت ہوجائے گی، پھر اگر شوہر نفی کے گواہ دے گا یا اس بات کے کہ مطلقہ بعد طلاق اس سے بولی کچھ اصلا مسموع نہ ہوگا، ہاں اگر عورت گواہ بروجہ شرعی نہ دے سکے تو شوہر پر حلف رکھا جائے گا اگر حلف سے کہہ دے گا کہ اس نے طلاق نہ دی طلاق ثابت نہ ہوگی اور اگر حاکم شرعی کے سامنے حلف سے انکار کرے گا تو طلاق ثابت مانی جائے گی۔(فتاوی رضویہ، جلد۱٢، صفحہ ٤٥٢ / ٤٥٣، مطبوعہ رضا فاونڈیشن)
نیز فرماتے ہیں غرض اسلامی ریاستوں میں قاضیان ذی اختیار شرعی کا موجود ہونا واضح، اور جہاں اسلامی ریاست اصلانہیں وہاں اگر مسلمانوں نے باہمی مشورہ سے کسی مسلمان کو اپنے فصل مقدمات کے لئے مقرر کرلیا تو وہی قاضی شرعی ہے۔
اور اگر ایسا نہ ہو تو شہر کا عالم کہ عالم دین و فقیہ ہو اور اگر وہاں چند علماء ہیں تو جو ان سب میں زیادہ علم دین رکھتا ہو وہی حاکم شرع ووالی دین اسلام وقاضی وذوی اختیار شرعی ہے مسلمانوں پر واجب ہے کہ اپنے کاموں میں اس کی طرف رجوع کریں اور اس کے حکم پر چلیں، یتیمان بے ولی پر وصی اس سے مقرر کرائیں نابالغان بے وصی کا نکاح اس کی رائے پر رکھیں ایسی حالت میں اس کی اطاعت من حیث العلم واجب ہونے کے علاوہ من حیث الحکم بھی واجب۔(فتاوی رضویہ، جلد۱٨، صفحہ۱۷۶/۱۷۷مطبوعہ رضا فاونڈیشن)
اور حضور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ان کے علاوہ دیگر معاملات میں دو مرد یا ایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی معتبر ہے جس حق کی شہادت دی گئی ہو وہ مال ہو یا غیر مال مثلاً نکاح، طلاق، عتاق، وکالت کہ یہ مال نہیں۔(بہار شریعت جلد۲حصہ۱۲ صفحہ۹۳۵گواہی کا بیان مکتبہ دعوت اسلامی )واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ
محمد راحت رضا نیپالی
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔