(جلوۂ اعلی حضرت علیہ الرحمہ19)
بچپن کی ایک حکایت
حضرتِ جناب سَیِّد ایوب علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو گھر پر ایک مولوی صاحب قراٰنِ مجید پڑھانے آیا کرتے تھے۔ ایک روز کا ذِکْر ہے کہ مولوی صاحِب کسی آیتِ کریمہ میں بار بار ایک لفظ آپ کو بتاتے تھے۔ مگر آپ کی زبان مبارک سے نہیں نکلتا تھا۔ وہ “زَبَر” بتاتے تھے آپ “زَیر” پڑھتے تھے یہ کیفیت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دادا جان حضرت مولانا رضا علی خان صاحب رحمۃ ﷲ تعالیٰ علیہ نے دیکھی حضور کو اپنے پاس بلایا اور کلام پاک منگوا کر دیکھا تو اس میں کاتب نے غلطی سے زَیر کی جگہ زَبَر لکھ دیا تھا، یعنی جو اعلیٰ حضر ت رحمۃ ﷲ تعالیٰ علیہ کی زبان سے نکلتا تھا وہ صحیح تھا۔ آپ کے دادا نے پوچھا کہ بیٹے جس طرح مولوی صاحب پڑھاتے تھے تم اُسی طرح کیوں نہیں پڑھتے تھے۔ عرض کی میں ارادہ کرتا تھا مگر زبان پر قابو نہ پاتا تھا ۔اِس قسم کے واقعات مولوی صاحب کو بار ہا پیش آئے تو ایک مرتبہ تنہائی میں مولوی صاحب نے پوچھا ، صاحبزادے! سچ سچ بتا دو میں کسی سے کہوں گا نہیں، تم انسان ہو یا جن؟ آپ نے فرمایا کہ ﷲ کا شکر ہے میں انسان ہی ہوں، ہاں ﷲ کا فضل و کرم شامل حال ہے۔(حیات اعلٰی حضرت،ج ۱، ص۶۸، مکتبۃ المدینہ، بابُ المدینہ کراچی)
حضرتِ جناب سَیِّد ایوب علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو گھر پر ایک مولوی صاحب قراٰنِ مجید پڑھانے آیا کرتے تھے۔ ایک روز کا ذِکْر ہے کہ مولوی صاحِب کسی آیتِ کریمہ میں بار بار ایک لفظ آپ کو بتاتے تھے۔ مگر آپ کی زبان مبارک سے نہیں نکلتا تھا۔ وہ “زَبَر” بتاتے تھے آپ “زَیر” پڑھتے تھے یہ کیفیت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دادا جان حضرت مولانا رضا علی خان صاحب رحمۃ ﷲ تعالیٰ علیہ نے دیکھی حضور کو اپنے پاس بلایا اور کلام پاک منگوا کر دیکھا تو اس میں کاتب نے غلطی سے زَیر کی جگہ زَبَر لکھ دیا تھا، یعنی جو اعلیٰ حضر ت رحمۃ ﷲ تعالیٰ علیہ کی زبان سے نکلتا تھا وہ صحیح تھا۔ آپ کے دادا نے پوچھا کہ بیٹے جس طرح مولوی صاحب پڑھاتے تھے تم اُسی طرح کیوں نہیں پڑھتے تھے۔ عرض کی میں ارادہ کرتا تھا مگر زبان پر قابو نہ پاتا تھا ۔اِس قسم کے واقعات مولوی صاحب کو بار ہا پیش آئے تو ایک مرتبہ تنہائی میں مولوی صاحب نے پوچھا ، صاحبزادے! سچ سچ بتا دو میں کسی سے کہوں گا نہیں، تم انسان ہو یا جن؟ آپ نے فرمایا کہ ﷲ کا شکر ہے میں انسان ہی ہوں، ہاں ﷲ کا فضل و کرم شامل حال ہے۔(حیات اعلٰی حضرت،ج ۱، ص۶۸، مکتبۃ المدینہ، بابُ المدینہ کراچی)
بچپن ہی سے نہایت نیک طبیعت واقع ہوئے تھے۔
چھ سال کی عمر میں پہلی تقریر! چھ سال کی عمر شریف میں ربیع الاول کے مبارک مہینہ میں منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ایک بہت بڑے مجمع کے سامنے آ پ نے پہلی تقریر فرمائی، جس میں کم وبیش دو گھنٹے علم و عرفان کے دریا بہائے اور سرور ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے ذکر ِولادت کے بیان کی خوشبو سے اپنی زبان کو معطر فرمایا، سامعین آپ کے علوم ومعارف سے لبریز بیان کو سن کر وجد میں آگئے اور تصویر ِحیرت بن گئے کہ ُان کے سامنے ایک کمسن بچے نے مذہبی دانشمندی کی وہ گراں مایہ باتیں بیان کیں جو بڑے بڑے صاحبانِ عقل و ہوش کے لیے باعثِ صد رشک ہیں، حقیقت یہ ہے کہ رَبُّ العالمین اپنے جس بندے کو اپنی معرفت کی دولت سے سرفراز کرنا چاہتا ہے اس کی حیاتِ پاک کی ایک ایک گھڑی اور ہر ہر ساعت میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات عام انسانوں کے فہم اور ادراک سے باہر ہوتے ہیں، لیکن جن کو خداوندِ قدوس نے بصارت و بصیر ت دونوں ہی کی روشنی عطافرمائی ہے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ خاصانِ خدا کے سینے علوم ومعرفت کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور ان کے لیے بچپن،جوانی،بڑھاپا کوئی دور کوئی زمانہ رکاوٹ نہیں بن سکتا ۔ (مجد دِ اسلام از مولانا نسیم بستوی مطبوعہ لاہور ص41)
عبـــــداللطیف قــادرى بَـڑَا رَھُــوَا بـَائِسـیْ پُوْرنِیَــْـہ (بِہَــار)
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔