(جلوۂ اعلی حضرت علیہ الرحمہ18)
محافظتِ نگاہ :
آپ کی بچپن ہی سے یہ عادت رہی کہ اجنبی عورتیں اگر نظر آجاتیں تو کُرتے کے دامن سے اپنا منہ چھپا لیتے ۔آپ کی عمر شریف جب کہ محض چار سال کی تھی ایک دن صرف بڑا سا کرتہ زیب ِ تن کئے ہوئے دولت کدہ سے باہر تشریف لائے تو آپ کے سامنے سے چند بازاری طوائفیں گزریں ،جنہیں دیکھتے ہی آپ نے کرتہ کا دامن چہرہ پر ڈال لیا ،یہ حالت دیکھ کر ان میں سے ایک عورت بولی’’واہ میاں صاحبزادے! آنکھیں ڈھک لیں اور ستر کھول دیا‘‘ آپ نے اِسی عالم میں بغیر اُن کی طرف نگاہ ڈالے ہوئے برجستہ جواب دیا’’جب آنکھ بہکتی ہے تو دل بہکتا ہے اور جب دل بہکتا ہے تو ستر بہکتا ہے‘‘۔
آپ کے اس عارفانہ جواب سے وہ سکتہ میں آگئیں ۔ آپ کے اِس مبارک عمل اور حیرت انگیز جواب کے پیشِ نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ ننھی سی عمر میں اس قدر فکر و شعور رکھتے تھے تو پھر دامن کی بجائے اپنے ہاتھوں ہی سے کیوں نہ آنکھیں چھپالیں کہ اس صورت میں اپنا سِتر بے پردہ نہ ہوتا اور مقصد بھی حاصل رہتا ،لیکن تھوڑی سی توجہ کے بعد یہ امرواضح ہو جاتا ہے کہ اگر آپ ہاتھوں ہی سے آنکھیں چھپالیتے تو اس طوائف کا مسخرہ آمیز سوال نہ ہوتا اور نہ اُس کو وہ نصیحت آموز جواب ملتا جو آپ نے دیا اور نہ گزرنے والے دوسرے سامعین کو وہ سبق ملتا جو بصیرت افروز ہے ۔ پھر آپ نے بالقصد وہ طریقہ اختیار نہ فرمایا بلکہ من جانبِ اللہ غیر ارادی طور پر آپ نے دامن سے آنکھیں چھپائیں کہ بچپنے کی ادا یوں ہی ہوا کرتی ہے یہ اور بات ہے کہ اس ننھی ادا میں علم النفس کے حقائق پوشیدہ تھے۔ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ(سوانح امام احمد رضا از علامہ بدر الدین قادری مطبوعہ سکھر ص117)
آپ کی بچپن ہی سے یہ عادت رہی کہ اجنبی عورتیں اگر نظر آجاتیں تو کُرتے کے دامن سے اپنا منہ چھپا لیتے ۔آپ کی عمر شریف جب کہ محض چار سال کی تھی ایک دن صرف بڑا سا کرتہ زیب ِ تن کئے ہوئے دولت کدہ سے باہر تشریف لائے تو آپ کے سامنے سے چند بازاری طوائفیں گزریں ،جنہیں دیکھتے ہی آپ نے کرتہ کا دامن چہرہ پر ڈال لیا ،یہ حالت دیکھ کر ان میں سے ایک عورت بولی’’واہ میاں صاحبزادے! آنکھیں ڈھک لیں اور ستر کھول دیا‘‘ آپ نے اِسی عالم میں بغیر اُن کی طرف نگاہ ڈالے ہوئے برجستہ جواب دیا’’جب آنکھ بہکتی ہے تو دل بہکتا ہے اور جب دل بہکتا ہے تو ستر بہکتا ہے‘‘۔
آپ کے اس عارفانہ جواب سے وہ سکتہ میں آگئیں ۔ آپ کے اِس مبارک عمل اور حیرت انگیز جواب کے پیشِ نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ ننھی سی عمر میں اس قدر فکر و شعور رکھتے تھے تو پھر دامن کی بجائے اپنے ہاتھوں ہی سے کیوں نہ آنکھیں چھپالیں کہ اس صورت میں اپنا سِتر بے پردہ نہ ہوتا اور مقصد بھی حاصل رہتا ،لیکن تھوڑی سی توجہ کے بعد یہ امرواضح ہو جاتا ہے کہ اگر آپ ہاتھوں ہی سے آنکھیں چھپالیتے تو اس طوائف کا مسخرہ آمیز سوال نہ ہوتا اور نہ اُس کو وہ نصیحت آموز جواب ملتا جو آپ نے دیا اور نہ گزرنے والے دوسرے سامعین کو وہ سبق ملتا جو بصیرت افروز ہے ۔ پھر آپ نے بالقصد وہ طریقہ اختیار نہ فرمایا بلکہ من جانبِ اللہ غیر ارادی طور پر آپ نے دامن سے آنکھیں چھپائیں کہ بچپنے کی ادا یوں ہی ہوا کرتی ہے یہ اور بات ہے کہ اس ننھی ادا میں علم النفس کے حقائق پوشیدہ تھے۔ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ(سوانح امام احمد رضا از علامہ بدر الدین قادری مطبوعہ سکھر ص117)
عبـــــداللطیفــــــ قــادرى بَـڑَا رَھُــوَا بـَائِسـیْ پُوْرنِیَــْـہ (بِہَــار)
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔