AD Banner

(جلوۂ اعلی حضرت علیہ الرحمہ21)

(جلوۂ اعلی حضرت علیہ الرحمہ21)


مولانا ظفر الدین بہاری صاحب کے نام ایک مکتوب(محررہ 7شعبان 1336ھ بمطابق 1918) میں اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں:

      بحمد للہ تعالیٰ فقیر نے 14شعبان 1286کو 13برس 10مہینے 4دن کی عمر میں پہلا فتویٰ لکھا،اگر سات دن اور زندگی بالخیر ہے تو اس شعبان 1336ھ کو اس فقیر کو فتاویٰ لکھتے ہوئے بفضلہ تعالیٰ پور ے 50سال ہوں گے ، اس نعمت کا شکر فقیر کیا ادا کرسکتا ہے؟ 

(حیاتِ مولانا احمد رضا خان بریلوی از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مطبوعہ کراچی ص50)


  مستقل فتویٰ نویسی :

پروفیسر مسعو داحمد صاحب تحر یر فرماتے ہیں:۔

   مولانا احمد رضاخان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تیر ہ سال دس مہینے اور چاردن کی عمر میں 14شعبان 1286ھ کو اپنے والد مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نگرانی میں فتویٰ نویسی کا آغاز کیا ، سات برس بعد تقریباً 1293ھ میں فتویٰ نویسی کی مستقل اجازت مل گئی۔پھر جب 1297میں مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوا تو کلی طور پر مولانا بریلوی فتویٰ نویسی کے فرائض انجام دینے لگے ۔(حیاتِ مولانا احمد رضا خان بریلوی از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مطبوعہ کراچی ص50)*


شادی

تعلیم مکمل ہوجانے کے بعد اعلیٰ حضرت قبلہ کی شادی کا نمبر آیا ۔آپ کا نکاح سن 1291ھ میں جناب ِ شیخ فضل حسین صاحب (رامپور) کی صاحبزادی’’ارشاد بیگم‘‘سے ہوا ،یہ شادی مسلمانوں کے لیے ایک شرعی نمونہ تھی ،مکان تو مکان آپ نے لڑکی والے کے یہاں بھی خبر بھجوا دی تھی کہ کوئی بات شریعتِ مطہرہ کے خلاف نہ ہو ،


چنانچہ اُن حضرات نے غلط رسم ورواج سے اتنا لحاظ کیا کہ لوگ ان کی دین داری اور پاسِ شرع کے قائل ہو گئے اور بڑی تعریف کی۔(مجد د اسلام از علامہ نسیم بستوی مطبوعہ لاھور ص45)*

 اہلیہء محترمہ ارشادبیگم :

مولانا حسنین رضا خان صاحب’’سیرتِ اعلیٰ حضرت‘‘میں لکھتے ہیں :

یہ ہماری محترمہ اماں جان رشتہ میں اعلیٰ حضرت کی پھوپھی زادی تھیں ۔ صوم و صلوٰۃ کی سختی سے پابند تھیں ۔ نہایت خوش اخلاق،بڑی سیر چشم، انتہائی مہمان نواز،نہایت متین و سنجیدہ بی بی تھیں۔ اعلیٰ حضرت کے یہاں مہمانوں کی بڑی آمد ورفت تھی ،ایسا بھی ہوا ہے کہ عین کھانے کے وقت ریل سے مہمان اتر آئے اور جو کچھ کھانا پکنا تھا وہ سب پک چکا تھا اب پکانے والیوں نے ناک بھوں سمیٹی آپ نے فوراً مہمانوں کے لیے کھانا اُتار کر باہر بھیج دیا اور سارے گھر کے لیے دال چاول یا کھچڑی پکنے کو رکھوا دی گئی کہ اس کا پکنا کوئی دشوار کام نہ تھا۔ جب تک مہمانوں نے باہر کھانا کھایا گھروالوں کے لئے بھی کھانا تیار ہوگیا۔ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی کہ کیا ہوا۔ اعلیٰ حضرت کی ضروری خدمات وہ اپنے ہاتھ سے انجام دیتی تھیں ۔ خصوصاً اعلیٰ حضرت کے سر میں تیل ملنا یہ اُن کا روز مرہ کا کام تھا،جس میں کم وبیش آدھا گھنٹہ کھڑا رہنا پڑتا تھا اور اس شان سے تیل جذب کیا جاتا تھا کہ اُن کے لکھنے میں اصلاً فرق نہ پڑے ،یہ عمل اُن کا روزانہ مسلسل تاحیاتِ اعلیٰ حضرت برابر جاری رہا۔سارے گھر کا نظم اور مہمان نوازی کا عظیم بار بڑی خاموشی اور صبر و استقلال سے برداشت کر گئیں ۔

 اعلیٰ حضرت قبلہ کے وصال کے بعد بھی کئی سال زندہ رہیں ،مگر اب بجز یاد ِالٰہی کے انھیں اور کوئی کام نہ رہا تھا۔         

عبد اللطیف قادری بڑا رہوا بائسی پورنیہ بہار
 8294938262 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad