(جلوہءِ اعلیٰ حضرت رحمةُ اللّٰه عَلَيه 35)
سجدہ کیا آپ ٹھوڑی پر کرتے ہیں؟
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ محب اللہ خان صاحب مرحوم جو بڑے پکے نمازی تھے، (وہ بہت غریب اور بڑے اکھڑ پٹھان تھے اور سوداگر ی محلہ میں رہتے تھے ۔)وہ کبھی اعلیٰ حضرت کی ملازمت کرتے تھے اور کبھی وہاں سے ناراض ہو کر حلوائی کا خوانچہ لگا لیتے تھے، یوں اُن کی گذر اوقات تھی۔
ایک مرتبہ ظہر کی نماز پڑھنے مسجد میں داخل ہوئے اور انھوں نے سنتوں کی نیت کی، اعلیٰ حضرت اس وقت وظیفہ پڑھ رہے تھے، وہ اپنے وظیفے میں دوسرے نمازیوں کی نگرانی فرماتے تھے کہ وہ کس طرح نماز ادا کر رہے ہیں ۔
محب اللہ خان صاحب کو اعلیٰ حضرت نے دیکھا کہ وہ رکوع میں اوپر کو سر اٹھا ئے ہوئے جانب ِ قبلہ دیکھتے رہتے ہیں۔ جب انھوں نےسلام پھیرا تو اعلیٰ حضرت نے اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ رکوع میں آپ سر اُٹھائے آگے کو کیوں دیکھتے ہیں؟. وہ بولے’’ تو کیا میں رکوع میں کعبہ سے منہ پھیر لوں‘‘اعلیٰ حضرت نے فرمایا: کہ سجدہ آپ کیا ٹھوڑی پر کرتے ہیں؟ اِس واسطے کہ پیشانی زمین پر رکھنے سے کعبہ سے منہ پھر جاتا ہے، اس پر وہ سناٹے میں رہ گئے ۔
مگر اِس نماز کے بعد اُنہوں نے رکوع میں حسبِ ہدایت پاؤں کی انگلیوں پر ہی نظر رکھی، منہ اٹھا کر سامنے کی طر ف نہ دیکھا ۔یہ مسئلہ اگر انھیں مسئلہ کے طور پر سمجھایا جاتا تو وہ نہ سمجھ سکتے تھے اور اپنے بنائے ہوئے اصول ہرگز نہ چھوڑتے مگر اعلیٰ حضرت کے اس معارضہ نے ان کے خود ساختہ اصول کو درہم برہم کر دیا اور اس معاملے میں ان کے دماغ کی کایا پلٹ دی۔ (سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولاناحسنین رضا خان مکتبہ برکاتی پبلشرز ص100)
نماز پڑھتے نظریں کہاں رکھے
اسی سے ملتا جلتا واقعہ’’حیاتِ اعلیٰ حضرت‘‘میں بھی ہے ،جنابِ سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ:ایک مرتبہ بعد نماز ظہر اعلیٰ حضرت مسجد میں وظیفہ پڑھ رہے تھے کہ ایک اجنبی صاحب نے سامنے آکر نماز کی نیت باندھ لی، جب رکوع کیا تو گردن اٹھائے ہوئے سجدہ گاہ(جہاں سجدے میں سر رکھا جاتا ہے) کو دیکھتے رہے ۔
فارغ ہونے پر اعلیٰ حضرت نے پاس بلا کر دریافت فرمایا کہ’’رکوع کی حالت میں گردن اس قدر کیوں اٹھائی ہوئی تھی؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’حضور سجدے کی جگہ کو دیکھ رہاتھا‘‘ فرمایا ’’سجدہ میں کیا کیجئے گا‘‘پھر فرمایا :بحالت ِ قیام نظر سجدہ گاہ پر،
اور بحالتِ رکوع پاؤں کی انگلیوں پر،
اور بحالت ِتسمیع سینہ پر،
اور بحالتِ سجود ناک پر،
اور بحالتِ قعود اپنی گود پر نظر رکھنا چاہیے ،نیز سلام پھیرتے وقت کاتبین کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے شانوں پر نظر ہونا چاہیے۔(حیاتِ اعلی حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص304)
عبداللطیف قادرى بَڑَا رَھُوَا بائِسیْ پُوْرنِیَه (بِہَار)
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔