AD Banner

(انگوٹھا چومنے کا ثبوت)

 (1)انگوٹھے چومنے کے ثبوت میں
(2)بنی اسرائیل کےدوسو(200)سالہ گناہ گارکےبارے میں اللہ تعالٰی نےفرمایا کہ اےموسٰی(علیہ السّلام)جب یہ تورات کھولتااس میں نامِ محمدﷺدیکھتاتواس کو چومتااور اپنی دونوں آنکھوں پر لگاتااور ان پر دُرود بھیجتا تھااسی وجہ سےمیں نےاس کی مغفرت کر دی

(1)
جب مؤذن کہے اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰه تو اس کو سن کر اپنے دونوں انگوٹھے یا کلمے کی انگلی چوم کر آنکھوں سے لگانا مستحب ہے اس میں دنیاوی و دینی بہت سے فائدے ہیں۔ اس کے متعلق احادیث وارد ہیں صحابہ کرام کا اس پر عمل رہا۔ عامۃ المسلمین ہر جگہ اس کو مستحب جان کر کرتے ہیں۔ 
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((مَنْ قَبَّلَ ظُفْرَىۡ إِبْهَامِهِ عِنْدَ سَمَاعِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ فِي الْآذَانِ أَنَا قَائِدُهُ وَمُدْخِلُهُ فِي صُفُوفِ الْجَنَّةِ ))
ترجمہ: جس نے اذان کے دوران مؤذن سے أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ سنا اور نام اقدس سُن کر اپنے انگھوٹے کے ناخن کو چوما تو میں ایسے شخص کو لے جا کر جنت کی صفوں میں داخل کر دوں گا۔
(رد المحتار بحواله كتاب الفردوس، فائدة التسليم بعدالاذان ، ج 1 ، ص 398 ، دارالفکر، بیروت)
خاتم المحققین علامی امین ابن عابدین شامی رحمة اللہ علیہ نے لکھا کہ اذان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر لگانا مستحب ہے اور ایسا کرنے والے کے لیے لکھا:
((فَإِنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَكُونُ قَائِدًا لَهُ إِلَى الْجَنَّةِ، كَذَا فِي كَنۡزِ الْعِبَادِ))
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت کی طرف اس کے قائد ہوں گے،ایسا ہی کنز العباد میں ہے۔
(رد المحتار، فائدة التسليم بعدالاذان ، ج 1 ، ص 398 ، دار الفکر، بیروت)
صلٰوۃ مسعودی جلد دوم باب بستم بانگ نماز میں ہے۔
((رُوِيَ عَنِ النَّبِيِِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ سَمِعَ اسْمِي فِي الْأَذَانِ وَ وَضَعَ اِبۡهَامَیۡهِ عَلَی عَيْنَيْهِ فَأَنَا طَالِبُهٗ فِي صُفُوفِ الْقِيٰمَةِ وَ قَائِدَهٗ إِلَى الْجَنَّةِ))
حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم سے مروی ہے کہ جو شخص ہمارا نام اذان میں سنے اور اپنے انگوٹھے آنکھوں پر رکھے تو ہم اس کو قیامت کی صفوں میں تلاش فرمائیں گے اور اس کو اپنے پیچھے پیچھے جنت میں لے جائیں گے۔“
(جاءالحق)
شامی جلد اول باب الاذان میں ہے۔
((يُسْتَحَبُّ أَنْ يُقَالُ عِنْدَ سَمَاءِ الْأُولٰى مِنَ الشَّهَادَةِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ وَ عِندَ الثَّانِيَةِ مِنْهَا قُرَّةُ عَيْنِي بِكَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ ثُمَّ : يَقُولُ اَللّٰهُمَّ مَتِِّعْنِيۡ بِالسَّمِعِ وَالْبَصَرِ بَعۡدَ وَضۡعِ ظُفْرَىِ الْاِبِهَامَيْنِ عَلَى الْعَيْنَيْنِ فَإِنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَكُونُ قَائِدًا لَّهُ إِلَى الْجَنَّةِ كَذَا فِي كَنُزِالْعِبَادِ قَهِسۡتَانِيۡ وَنَحْوِهِ فِي الْفَتَاوَى الصُّوفِيَةِ وَ فِي كِتٰبِ الْفِرْدَوْسِ مَنْ قَبَّلَ ظُفْرَىۡ إِبْهَامَيْهِ عِندَ سَمَاءِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوۡلُ اللّٰهِ فِي الْاٰذَانِ أَنَا قَائِدُهُ وَ مُدْخِلُهُ فِي صُفُوفِ الْجَنَّةِ وَ تَمَامُهُ فِي حَوَاشِي الْبَحْرِ لِلرَّمَلِيِِّ))
اذان کی پہلی شہادت پر یہ کہنا مستحب ہے صَلَّی اللّٰهُ عَلَیۡکَ یَا رَسُوۡلَ اللّٰهِ اور دوسری شہادت کے وقت یہ کہے قُرَّةُ عَیۡنِیۡ بِکَ یَا رَسُوۡلَ اللّٰهِ پھر اپنے انگوٹھوں کے ناخن اپنی آنکھوں پر رکھے اور کہے اَللّٰهُمَّ مَتِِّعْنِي بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ تو حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم اس کو اپنے پیچھے پیچھے جنت میں لے جائیں گے اسی طرح کنز العباد میں ہے اسی کے مثل فتاوٰی صوفیہ میں ہے اور کتاب الفردوس میں ہے کہ جو شخص اپنے انگوٹھوں کے ناخنوں کو چومے اذان میں اَشۡہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوۡلُ اللّٰهِ سن کر تو میں اس کو اپنے پیچھے پیچھے جنت میں لے جاؤں گا اور اسے جنت کی صفوں میں داخل کرونگا۔ اس کی پوری بحث بحر الرائق کے حواشی رملی میں ہے۔“ اس عبارت سے چھ کتابوں کا حوالہ معلوم ہوئے "شامی" "کنز العباد" "فتاوٰی صوفیہ" "کتاب الفردوس" قہستانی" "بحر الرائق" کا حاشیہ۔ ان تمام میں اس کو مستحب فرمایا ۔
(جاءالحق)
مقاصد حسنہ فی الاحادیث الادئرہ علی السنہ میں امام سخاوی نے فرمایا۔
((ذكَرَهُ الدَّیۡلَمِي فِي الْفِرْدَوسِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ نِ الصِِّدِِّيقِ رَضِي اللّٰهُ عَنْهُ أَنَّهُ لَمَا سَمِعَ قَوْلَ الْمُؤَذِِّنِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوۡلُ اللّٰهِ قَالَ هٰذَا وَ قَبَّلَ بَاطِنَ الۡاَنۡمِلَتَيْنِ السَّبَابَتَيْنِ وَ مَسَحَ عَيْنَيْهِ فَقَالَ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ فَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلَ خَلِيۡلِي فَقَدْ حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي وَلَمْ يَصِحَّ))
دیلمی نے فردوس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے جب مؤَذن کا قول اَشۡہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوۡلُ اللّٰهِ سنا تو یہ ہی فرمایا اور اپنے کلمے کی انگلی کے باطنی حصوں کو چوما اور آنکھوں سے لگایا پس حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جو شخص میرے اس پیارے کی طرح کرے اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی ۔“ یہ حدیث پایہ صحت تک نہ پہنچی۔
(جاء الحق)
اسی مقاصد حسنہ میں موجبات رحمت مصنفہ ابوالعباس احمد ابی مکرروار سے نقل کیا :
((عَنِ الْخِضَرِ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَنَّهُ قَالَ مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ الْمُؤَذِِّنَ يَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ مَرْحَبًا بِحَبِيبِي وَ قُرَّةُ عَيْنِي مُحَمَّدُ ابْنُ عَبْدِ اللّٰهِ ثُمَّ يُقَبِّلُ إِبْهَامَيْهِ وَ يَجْعَلُهُمَا عَلَى عَيْنَيْهِ لَمْ يَرْمُدُ أَبَدًا))
"حضرت خضر علیہ السلام سے روایت ہے کہ جو شخص مؤذن کو یہ کہتے ہوئے سنے اشہد ان محمد رسول اللہ تو کہے مرحبا  بحبیبی وقرة عینی محمد ابن عبداللہ پھر اپنے انگوٹھوں کو چومے اور اپنی آنکھوں سے لگائے تو اس کی آنکھیں کبھی نہ دُکھیں گی"۔
محمدا رسول الله سُن کر یہ پڑھا مرحبا بحبيبي وقرة عيني محمد بن عبد الله صلی اللہ علیہ وسلم پھر اپنے انگوٹھے چوم کر اپنی آنکھوں پر رکھ لئے تو اُس کی آنکھیں کبھی نہ دُکھیں گی۔
(المقاصد الحسنه ، حرف الميم ، ج 1 ، ص 605 ، دار الكتاب العربي، بیروت)
اسی مقاصد حسنہ میں شمس محمد ابن صالح مدنی سے روایت کیا ۔ انہوں نے امام امجد کو فرماتے ہوئے سنا (امام امجد متقدمین علمائے مصر میں سے ہیں) فرماتے تھے کہ جو شخص اذان میں حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کا نام پاک سنے تو اپنے کلمے کی انگلی اور انگوٹھا جمع کرے۔
((وَ قَبَّلَهُمَا وَ مَسَحَ بِهِمَا عَيْنَيْهِ لَمْ يَرُ مُدْ أَبَدًا))
اور دونوں کو چوم کر آنکھوں سے لگائے تو کبھی آنکھ نہ دُکھے گی ۔“ پھر فرمایا کہ بعض مشائخ عراق و عجم نے فرمایا کہ جو یہ عمل کرے تو اس کی آنکھیں نہ دکھیں گی۔
((وَقَالَ لِي كُلٌّ مِِّنْهُمَا مُنْذُ فَعَلْتُهُ لَمْ تَرُ مُدْ عَيْنِي))
انہوں نے فرمایا کہ جب سے میں نے یہ عمل کیا ہے میری بھی آنکھیں نہ دُکھیں ۔“
اسی مقاصد حسنہ میں کچھ آگے جا کر فرماتے ہیں۔
((قَالَ ابْنُ صَالِحٍ وَ أَنَا مُنْذُ سَمِعْتُهُ اِسْتَعْمَلْتُهُ فَلَا تَرُمُدۡ عَيْنِي وَ أَرْجُوا أَنَّ عَافِيَتَهُمَا تَدُومُ وَإِنِِّي أَسْلَمَ مِنَ الْعَمٰى إِنْشَاءَ اللّٰهِ))
ابن صالح نے فرمایا کہ میں نے جب سے یہ سنا ہے اس پر عمل کیا میری آنکھیں نہ دکھیں اور میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ یہ آرام ہمیشہ رہے گا اور میں اندھا ہونے سے محفوظ رہوں گا ۔“
پھر فرماتے ہیں کہ امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص اشہد ان محمد رسول اللہ سن کر یہ کہے "مَرْحَبًا يَا حَبِيبِي وَ قُرَّةُ عَيْنِي مُحَمَّدُ ابْنُ عَبْدِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" اور اپنے انگوٹھے چوم لے اور آنکھوں سے لگائے لَمْ يَعْمِ وَ لَمْ يَرَمُد کبھی اندھا نہ ہوگا اور نہ کبھی اس کی آنکھیں دُکھیں گی۔
غرض کہ اسی مقاصد حسنہ میں بہت سے آئمہ دین سے یہ عمل ثابت کیا شرح نقایہ میں ہے۔
((وَ اَعْلَمُ أَنَّهُ يُسْتَحَبُّ أَن يُقَالَ عِندَ سَمَاءِ الْاُولٰى مِنَ الشَّهَادَةِ الثَّانِيَةِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ وَعِنْدَ الثَّانِيَةِ مِنْهَا قُرَّةٌ عَيْنِي بِكَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ بَعْدَ وَضَعِ ظُفْرَى إِبْهَامَيْنِ عَلَى الْعَيْنَيْنِ فَإِنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَكُونُ لهُ قَائِدًا إِلَى الْجَنَّةِ كَذَا فِي كَنُزُ الْعِبَادِ))
جاننا چاہئیے کہ مستحب یہ ہے کہ دوسری شہادت کے پہلے کلمہ سن کر یہ کہ قرۃ عینی بک یا رسول اللہ اپنے انگوٹھوں کے ناخنوں کو آنکھوں پر رکھے تو حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم اس کو جنت میں اپنے پیچھے پیچھے لے جائیں گے۔
اس کے علاوہ اور عبارات پیش کی جاسکتی ہیں مگر اختصاراً اس پر قناعت کرتا ہوں حضرت صدر الافاضل مولائی مرشدی استاذی مولانا الحاج سید نعیم الدین صاحب قبله مراد آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ ولایت سے انجیل کا بہت پرانانسخہ بر آمد ہوا جس کا نام (انجیل برنباس)
اور ہر زبان میں اس کے ترجمے کئے گئے ہیں اس میں لکھاہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے روح القدس (نور مصطفوی) کے دیکھنے کی تمنا کی تو وہ نور ان کے انگوٹھے کے ناخنوں میں چمکایا گیا۔ انہوں نے فرط محبت سے ان ناخنوں کو چوما اور آنکھوں سے لگایا۔
(جاء الحق حصه اول صفحہ۳۹۲ تا ۳۹۴)
(2)نام محمد چومنے کی برکت:
حضرت وہب بن منبہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں
((كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ رَجُلٌ عَصٰى مِائَتَِيْ سَنَةٍ ثُمَّ مَاتَ فَأَخَذُوا بِرِجْلِهِ فَالْقَوْهُ عَلٰى مَرْبَلَةٍ فَأَوْحَى اللّٰهُ إِلٰى مُوۡسٰى عَلَيْهِ السَّلَامُ أَنۡ أَخْرِجْ فَصَلِِّ عَلَيْهِ .قَالَ يَارَبِِّ بَنِي إِسْرَائِيلَ شَهِدُوْا أَنَّهُ عَصَاكَ مِأَْتَىۡ سَنَةٍ. فَأَوْحَى اللّٰهُ إِلَيْهِ هٰكَذَا كَانَ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ كُلَّمَا نَشَرَ التَّوْرَاةَ وَنَظَرَ إِلٰى اِسْمِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ تَعَالٰی عَلَیۡهِ وَسَلّمَ قَبَّلَهُ وَوَضَعَهُ عَلَى عَيْنَيْهِ وَصَلّٰى عَلَيْهِ ، فَشَكَرْتُ ذَالِكَ لَهٗ وَغَفَرْتُ ذُنُوۡبَهُ وَزَوَّجۡتُهُ سَبْعِيۡنَ حُوۡرًا))
ترجمہ :بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے دو سو(۲۰۰)سال تک اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی۔ چنانچہ جب وہ مر گیا تو لوگوں نے اس کو اس کی ٹانگوں سے پکڑ کر گندگی کے ایک ڈھیر پر پھینک دیا۔ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ جاؤ اور اس پر نمازِجنازہ پڑھو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار بنی اسرائیل نےگواہی دی ہے کہ اس نے تیری دو سو(۲۰۰)سال تک نافرمانی کی۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں ایسا ہی ہے مگر یہ جب بھی  یہ تورات کھولتا اس میں نامِ محمد(صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم)دیکھتا تو اس کو چومتا اور اپنی دونوں آنکھوں پر لگاتا اور ان پر دُرود بھیجتا تھا تو میں نے اس کی جزا یہ دی کہ اُس کے تمام گناہوں کو بخش دیا اور ستر(۷۰) حوروں کے ساتھ اُس کا نکاح کر دیا۔
(حلية الأولياء لابی نعیم وہب بن منبه ، ج 4، ص 42، دار الكتاب العربي بيروت لا سیرت حلبیه، باب تسميه صلى الله تعالى عليه سلم محمداً ، ج 1 ، ص 122ـ 123 ، دار الكتب العلمية، بيروت
السيرة الحلبية ( نور الدین حلبی ) جلد نمبر 1،
الخصائص الکبرٰی (سیوطی ) جلد نمبر 1،
القول البدیع ( سخاوی)،
حجة اللہ علی العالمین ( نبہانی)
جلد نمبر1،
تفسیرِ در منثور (سیوطی )
تحت سورۃ الاعراف آیت نمبر 156،
تفسیرِ روح البیان(اسماعیل حقی)جلد7)
اللّٰه عَزّ وَجَلَّ
پیارےمحبوبﷺو
انبیاۓِکرام(علیھم السّلام)و
صحابہ کرام(علیھم الرضوان)و  اولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه)کےصدقےمیں
میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے(آمین)
جملہ مؤمنین و مؤمنات کے لئے دعائےِ مغفرت کی اِلۡتِجا ہے
نیز شیئر کرنے کی گذارش ہے
طالبِ دعا
گدائے غوث و خواجہ و رضا
عبد الوحید قادری
شاہ پور بلگام کرناٹک
نوٹ:-
ٹائپنگ(لکھنے)میں اگر کوئی غلطی پائیں تو فورًا مطّلع فرمائیں نوازش ہوگی
9916313403
Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad