امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ شخصیت ‘ حیات وتعلیمات :
(1)اللہ تعالٰی ہر صدی میں دینِ اسلام کی تجدید اور اس میں آنے والی خرافات اور برائیوں کے خاتمہ کے لئے باعظمت شخصیات(مجدد)کو دنیا میں پیدا فرماتا ہے
(2)حدیث شریف میں‘امام ربانی کی آمدکی بشارت
(3)امام ربانی کا امت پر عظیم احسان
(4)ایک مبارک خواب
(5)بیعت و خلافت
(6)حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کا علمی وروحانی مقام
(7)حضرت امام ربانی کے حق میں حضرت غوث اعظم کی بشارت
(8)تذکرہ امام ربانی کی اہمیت حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی نظر میں
(9)کرامات
(10)ارشادات وفرمودات
(11)وصال مبارک روزسہ شنبہ 28 صفر 1034ھ
(1)اللہ تعالٰی ہر صدی میں دینِ اسلام کی تجدید اور اس میں آنے والی خرافات اور برائیوں کے خاتمہ کے لئے باعظمت شخصیات(مجدد)کو دنیا میں پیدا فرماتا ہے
(2)حدیث شریف میں‘امام ربانی کی آمدکی بشارت
(3)امام ربانی کا امت پر عظیم احسان
(4)ایک مبارک خواب
(5)بیعت و خلافت
(6)حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کا علمی وروحانی مقام
(7)حضرت امام ربانی کے حق میں حضرت غوث اعظم کی بشارت
(8)تذکرہ امام ربانی کی اہمیت حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی نظر میں
(9)کرامات
(10)ارشادات وفرمودات
(11)وصال مبارک روزسہ شنبہ 28 صفر 1034ھ
امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ شخصیت ‘ حیات وتعلیمات :
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنْ، وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْاَنْبِیَاِءوَالْمُرْسَلِیْنْ، وَعَلٰی آلِہِ الطَّیِِّبِیْنَ الطَّاہِرِیْنْ، وَاَصْحَابِہِ الْاَکْرَمِیْنَ اَجْمَعِیْنْ، وَعَلٰی مَنْ اَحَبَّہُمْ وَتَبِعَہُمْ بِاِحْسَانٍ اِلٰی یَوْمِ الدِِّیْنْ۔
اَمَّا بَعْدُ!(قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِہَذِہٖ الأُمَّۃِ عَلَی رَأْسِ کُلِِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُجَدِِّدُ لَہَا دِینَہَا))(سنن ابی داؤد)
یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالٰی ہر صدی میں دینِ اسلام کی تجدید اور اس میں آنے والی خرافات اور برائیوں کے خاتمہ کے لئے باعظمت شخصیات کو دنیا میں پیدا فرماتا ہے؛ جو منشاء خداوندی و مرضیٔ رسالت پنا ہی کے مطابق دینِ متین کی حفاظت کرتی ہیں اور اس میں آئی خرابیوں کا ازالہ کرتے ہوئے اصلاح امت کا فریضہ انجام دیتی ہیں ، جیسا کہ سنن ابو داود میں حدیث پاک ہے:((عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ فِیمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِہٰذِہِ الأُمَّۃِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَہَا دِیْنَہَا))حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں ، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ ہر صدی کی ابتداء میں اس امت میں ایسوں کو وجود بخشتا ہے جو اس کے لئے اس کے دین کی تجدید کرتے ہیں۔(سنن ابی داود)
چونکہ(28)صفر المظفر 1034ھ کو امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وصال مبارک ہوا ہے، اسی مناسبت سے آج آپ کے احوالِ شریفہ اور تعلیمات مقدسہ پر مختصر گفتگو کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے:اللہ تعالٰی ہر دور میں چند ایسے نفوس قدسیہ کو وجود بخشتا ہے جو احکامِ اسلام کے محافظ اور قوانینِ شریعت کے پاسباں ہوتے ہیں ،انہیں باعظمت شخصیتوں میں امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
(2)حدیث شریف میں‘امام ربانی کی آمدکی بشارت:
یہ ایک مُسَلَّمہ بات ہے کہ اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’ما کان ،وما یکون‘‘ یعنی جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ ہوگا‘ان تمام چیزوں کا علم عطا فرمایا،اور آپ نے اللہ تعالی کے اس عطا کردہ علم کی خیرات اپنی امت میں تقسیم فرمائی ہے، اور حضرات اہل بیت کرام و صحابہ عظام رضی اللہ عنہم کی وساطت سے امت تک یہ علم پہنچا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فرامین کے ذریعہ جہاں اور چیزوں کی خبر دی وہیں حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کی بشارت بھی عطا فرمائی، چنانچہ’’ جمع الجوامع،حلیۃ الاولیاء، اور کنزالعمال‘‘ میں روایت ہے :((عن عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر، قال: بلغنا أن النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال:’’ یکون فی أمتی رجل۔ یقال له صلة۔ یدخل الجنة بشفاعته کذا وکذا))حضرت عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں ایک ایسا شخص ہوگا جس کو’’صِلَۃْ ‘‘ (مخلوق کو خالق سے جوڑنے والا) کہا جائے گا، اس کی شفاعت سے بے شمار افراد جنت میں داخل ہوں گے۔(جمع الجوامع۔حلیۃ الاولیاء،ج:2،ص:241،کنز العمال)
اس حدیث شریف میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے وجودِ مسعود کی طرف اشارہ ہے، امت کے اکابر علماء نے آپ کو اس حدیث شریف کا مصداق قرار دیا، اور خود حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:((الحمد للہ الذی جعلنی صلة۔الخ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔))ترجمہ: تمام تعریف اس خدا کے لئے ہے جس نے مجھے دو سمندروں کو ملانے والا (صلہ) اور دو گروہوں میں صلح کرانے والا بنایا ہے، اور درود وسلام ہو ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو ساری مخلوق میں سب سے افضل ہیں، اور تمام انبیاء کرام وملائکہ پر بھی درود وسلام ہو۔(مکتوبات امام ربانی،دفتردوم،مکتوب نمبر:6)
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے جن دوسمندورں کا ذکر فرمایا ہے ان سے ’’شریعت اور طریقت ‘‘ کے سمندر مراد ہیں، اور دو گروہوں سے’’علماء اور صوفیاء‘‘ مراد ہیں۔(تذکرۂ مشائخ نقشبندیہ، مؤلفہ علامہ نبی بخش توکلی،ص:265)
(3)امام ربانی کا امت پر عظیم احسان:
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے نازک وقت میں صدائے حق بلند فرمائی جبکہ بادشاہ جلال الدین اکبر نے دین اسلام کے مقابل ایک باطل مذہب ’’دینِ الٰہی‘‘ کی بنیاد رکھی، مساجد و مدارس کو منہدم کیا جانے لگا، حلال جانور ذبح کرنے پر پابندی عائد کی گئی جبکہ حرام خوری اور شراب نوشی پر کوئی امتناع نہ تھا، شعائر اسلام کو مٹایا جانے لگا، احکام شریعت کو نظر انداز کرکے باطل نظریات کو فروغ دیا جانے لگا، بادشاہ کے دربار میں آنے والے ہر شخص پر لازم تھا کہ وہ بادشاہ کو سجدہ کرے۔
عبادتوں میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو ہی خطرہ کی بات ہے لیکن جب پورے دین میں بگاڑ پیدا ہوجائے اور بگاڑ کا نام ہی اصلاح رکھ دیا جائے اور بے دینی کو عین دین ٹھہرایا جائے تویہ بہت بڑا خطرہ ہے، اور اکبری فتنہ اس قدر شدید تھا کہ اس کا فساد ایک خطہ تک محدود نہ تھا بلکہ دنیا کا ایک براعظم اس کی لپیٹ میں آچکا تھا،ایسے نازک وقت میں امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ایک عظیم قوت کے ساتھ اٹھے اور اکبر کے خود ساختہ دین الٰہی اورباطل نظریات کا خاتمہ کیا۔
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تمام توانائیوں کو تحفظِ اسلام اور اعلاءِکلمۃ الحق کے لئے صرف فرما دیا، اپنی زندگی کا ہر لمحہ فروغِ دین اور اصلاحِ امت کے لئے وقف فرمادیا۔
دعوتِ حق کے لئے آپ نے حکمت و موعظت کا اسلوب اپنایا، بادشاہ کے مصاحبین کے نام خطوط لکھے، ارباب حکومت واَعْیانِ سلطنت کو حق کی طرف متوجہ فرمایا۔
حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کے دینی وسماجی اور اصلاحی کارناموں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، آپ ہزارۂ دوم کے مجدد اور حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کے مرید خاص و خلیفہ اور حضرت فاروق اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے بااختصاص شہزادہ ہیں ۔
آپ کا نسب مبارک اٹھائیس(28) واسطوں سے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے جا ملتا ہے ۔
(تذکرۂ مشائخ نقشبندیہ،ص:250)
امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات مثالی ہیں، آپ نے بڑی پامردی سے باطل طاقتوں کا مقابلہ فرمایا، آپ کو قیدوبند کی صعوبتوں سے گذارا گیا،قید خانہ میں بھی آپ نے اپنے مشن کو جاری رکھا، آپ کی مساعی جمیلہ کی برکت اور تعلیم وتربیت کا یہ فیض رہا کہ وہ سارے قیدی جو کل تک قاتل وچور، شروفساد بپاکرنے والے مجرم تھے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کرکے صالحین واہل اللہ سے ہوگئے ۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ جس طرح امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃاللہ علیہ نے امر بالمعر وف ونہی عن المنکر کا عظیم فریضہ انجام دیا ہم بھی اس پاکیزہ اسلوب اور آپ کے داعیانہ کردار کو اپناتے ہوئے معاشرہ کو امن کا گہوارہ بنائیں۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے حالات لکھتے ہوئے حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ تعالی علیہ رقم طراز ہیں: قطب العارفین، محبوب صمدانی ،امام ربانی،مجددالف ثانی امام طریقت حضرت شیخ احمد فاروقی نقشبندی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ آپ نسبتًا فاروقی ہیں ۔
اٹھائیس واسطوں پر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے دادا ہوتے ہیں، آپ کے آباء و اجداد، صلحاء وعلماء ہوئے ہیں۔
ماہ شوال المکرم، شب جمعہ، 971ھ بلدہ سرہند میں آپ کی ولادت ہوئی ۔
’’خاشع‘‘ 971ھ آپ کی تاریخ ولادت ہے۔
(زبدۃ المقامات،مترجم،ص:131،تذکرۂ مشائخ نقشبندیہ،ص:252)۔
(4)ایک مبارک خواب:
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت سے قبل آپ کے والد گرامی قدوۃ العارفین حضرت مولانا شیخ عبد الاحد رحمۃ اللہ علیہ نے خواب دیکھا کہ ساری دنیا میں تاریکی پھیلی ہوئی ہے، خنزیر، بندر اور ریچھ لوگوں کو ہلاک کررہے ہیں، اسی دوران میرے سینے سے ایک عظیم نور نکلا جس سے سارا جہاں روشن ومنور ہو گیا، اور وہ ایک بجلی کی طرح تمام درندوں کو جلا کر خاک کر دیا، اور اس نور میں ایک تخت ظاہر ہوا، اور اس تخت پر ایک بزرگ مسند نشیں ہیں، اور بہت سے نورانی آدمی اور فرشتے ان کے سامنے باادب کھڑے ہیں، اور ان کے سامنے ظالموں، زندیقوں اور ملحدوں کو بکروں کی طرح ذبح کیا جارہا ہے، اور کوئی شخص بلند آواز یہ آیت کریمہ تلاوت کر رہا ہے:
((وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ ، اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا))
حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بیشک باطل مٹنے والا ہی ہے۔
جب حضرت عبد الاحد رحمۃ اللہ علیہ نے اس خواب کی تعبیر حضرت شاہ کمال کیتھلی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کی تو آپ نے فرمایا: اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تمہارے گھر ایک ایسا لڑکا تولد ہوگا جس کی صف اولیاء میں امتیازی شان ہوگی، ان کے نور سے الحاد وبدعت کی تاریکی دور ہوگی اور دین محمدی کو روشنی اور فروغ حاصل ہوگا۔
(تذکرۂ مشائخ نقشبندیہ،ص:253۔جواہر مجددیہ،ص‘16)۔
چنانچہ (ماہ شوال المکرم،شب جمعہ،971ھ) اس مبارک خواب کی تعبیر بن کر حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ تولد ہوئے۔
آپ ابھی بہت کم عمر تھے کہ شیخ شاہ کمال قادری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی نسبت اس طرح پیشن گوئی فرمائی تھی کہ اس بچہ کی عمر طویل ہوگی اور بہت بڑا عالم، صاحبِ احوالِ عالیہ ہوگا ۔
شیخ موصوف نے اپنے انتقال کے وقت اپنی زبان حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو چُسوا کرجب ہی سے نسبت قادریہ کا القاء فرما دیا تھا، لڑکپن ہی سے آپ کی کچھ ایسی حالت تھی کہ جو آپ کو دیکھتا کہتا کہ یہ بچہ ہونہار ہے، آئندہ بہت کچھ کر دکھائے گا، آپ نے اکثر علوم متداولہ اپنے والد ماجد سے ہی حاصل کئے ہیں، پھر سیال کوٹ جاکر مولانا محمد کمال کشمیری اور مولانا یعقوب کشمیری سے علوم کی تحصیل کی اور حدیث شریف کی سند قاضی بہلول بدخشی سے حاصل فرمائی، آپ کے زمانہ میں کوئی آپ کا ہمسر‘علوم میں نہ تھا، آپ کو نسبت چشتیہ اور قادریہ اور ان دونوں میں اجازت وخلافت اپنے والد گرامی ہی سے حاصل ہوئی ۔
ابھی آپ کی عمر شریف (17)سال بھی نہیں ہوئی تھی کہ علوم ظاہری وباطنی میں یکتائے روزگار ہوکر طالبین اور سالکین کو ظاہری اور باطنی علوم کا افادہ فرمانے میں مصروف ہوگئے، اسی اثناء میں بہت سارے رسالے جیسے رسالہ جات تہلیہ اور ردِ روافض وغیرہ تصنیف فرمائے ، گو اس وقت روافض کا بہت زور تھا،مگر آپ کی حق پسند طبیعت نے ان کا رد لکھ ہی دیا۔
باوجود اس کمال کے نسبت نقشبندیہ حاصل کرنے کے لئے آپ بہت مشتاق تھے۔
(5)بیعت وخلافت:
جب 1007ھ میں آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوچکا تو آپ 1008 ھ میں حج کے لئے اپنے وطن سے روانہ ہوئے ، راہ میں دہلی پڑتی تھی، دہلی پہنچ کر حضرت خواجہ محمد باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ سے شرف ملاقات حاصل کئے، حضرت آپ کو نہایت تعظیم وتکریم سے لئے، دو دن کے بعد حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو داعیہ بیعت پیدا ہوا، حضرت باقی باللہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے خلاف عادت بغیر استخارہ، آپ کو سلسلہ عالیہ میں داخل فرما کر اپنا گذشتہ خواب بیان فرمایا کہ بہت دن ہوئے، میں نے ایک خواب دیکھا ہے، جس کی تعبیر حضرت خواجگی امکنگی قدس سرہ نے یہ دی تھی کہ مجھ سے کوئی قطب الاقطاب فیض پائے گا، تم میں وہ سب آثار پائے جاتے ہیں، تم ہی آئندہ قطب الاقطاب ہونے والے ہو۔
پھرحضرت امام ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے طریقہ نقشبندیہ کے ریاضات و مجاہدات، وظائف واذکار اور مراقبات میں اشتغال فرمایا، خدا کی شان! دو مہینے اورچند روز میں علومِ لدنیہ، معارِف یقینیہ، اسرارِ ولایت، مقاماتِ سَنِیَّہْ،انوارِ فیوضاتُ و برکاتِ الٰہیہ کچھ ایسے امڈے چلے آرہے تھے کہ جس کی وجہ سے بڑے بڑے اولیاء اللہ کی عقلیں دنگ تھیں:
ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاء ۔
یہ اللہ کا فضل ہے جس کوچاہتاہے دیتاہے۔
پھر اجازت وخلافت سے سرفراز ہوکر اپنے وطن میں تشریف لائے، دور دور سے عطشانِ معرفت آکر فیض یاب ہوتے تھے، گو آپ چشتیہ و قادریہ و نقشبندیہ کل نسبتوں کے مجمع تھے لیکن طریقہ نقشبندیہ کی ترویج میں خاص دلچسپی رکھتے تھے، غرض آپ کی حالت اس مقولہ کے مصداق ہے :
((لَایُحِبُّہٗ اِلَّامُؤْمِنٌ تَقِیٌّ وَلَایُبْغِضُہٗ اِلَّا فَاجِرٌشَقِیٌّ))
"مؤمنِ متقی ہی آپ کو چاہا کرتا اور اپنے دل میں آپ کی محبت لئے رہتا ہے، اور فاجر شقی، بدنصیب ازلی ہی آپ سے بغض و عداوت رکھتا ہے۔"
حضرت شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ آخر میں نہایت معتقد ہو کر یہی مقولہ فرمایا کرتے تھے، اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی آپ کی بہت کچھ مدح کی ہے ۔
(6)حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کا علمی وروحانی مقام:
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی مقام ومرتبہ کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کے پیر و مرشد حضرت خواجہ محمد باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے متعلق فرمایا: ’’شیخ احمد وہ آفتاب ہیں جس میں ہم جیسے کئی ستارے گم ہیں‘‘۔
حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ عالم اسلام کی وہ باکمال ہستی ہیں جس کا فیض سارے عالم میں پھیلا ہوا ہے، آپ بیک وقت علماء ربانین کے پیشوا بھی تھے اور ارباب طریقت کے مقتداء بھی، آپ نے تبلیغ دین اور احیاء اسلام کا عظیم ترین فریضہ انجام دیا، روحانیت کے عظیم ترین منصب پر فائز ہونے کے ساتھ آپ کی علمی جلالت کا یہ حال تھا کہ تفسیر لکھنے کے دوران ایک مقام پر ابوالفضل کو- جو ایک نادر انداز میں بے نقط حروف سے قرآن کریم کی تفسیر لکھ رہا تھا- دشواری ہوئی اور وہ رک گیا، اچانک وہاں حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ جلوہ افروز ہوئے، اس نے آپ سے درخواست کی کہ میں یہاں پریشان ہوں کہ ان آیات مبارکہ کے مفہوم کوبیان کرنے کے لئے بے نقط الفاظ نہیں مل رہے ہیں، توحضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے قلم لیا اور فی البدیہ ان آیات کی بے نقط تفسیر لکھ کر ابوالفضل کے حوالہ کر دی۔ ابوالفضل آپ کے تبحر علمی کو دیکھ کر محو حیرت ہو گیا۔
(زبدۃ المقامات،ص:137/138۔تذکرۂ مشائخ نقشبندیہ مؤلفہ:علامہ نبی بخش توکلی،ص:255)۔
آپ کے پیر و مرشد حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: میاں شیخ احمد (رحمۃ اللہ علیہ) فضل وکمال کے نیر تاباں ہیں، جن کی روشنی میں ہمارے جیسے کتنے ہی ستارے گم ہیں۔
آپ مرید نہیں بلکہ مراد اور محبوب ہیں۔ جن کے ظہور کی کتنے ہی اکابر اولیاء اللہ نے بشارتیں دی تھیں۔ میر ی محنت رائیگاں نہیں گئی کہ میاں شیخ احمد
(رحمۃ اللہ علیہ) جیسی ہستی کی تربیت کر چلا ہوں، جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بشارت دی کہ تم علم کلام کے مجتہدین سے ہو۔ جن کے عقائد کی بارگاہ رسالت میں مقبولیت ہوچکی ہے، اور فخر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کے ایک رسالہ کے متعلق اولیاء کرام سے فرمایا کہ ایسے عقیدے رکھنے چاہئیے!
میاں شیخ احمد(رحمۃ اللہ علیہ)جیسی ہستی آج اس آسمان کے نیچے اور نہیں ہے ۔
(زبدۃ المقامات۔تذکرہ مشائخ نقشبندیہ،ص:262۔مشائخ نقشبندیہ۔)
(7)حضرت امام ربانی کے حق میں حضرت غوث اعظم کی بشارت:
حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ جامع السلاسل بزرگ ہیں، آپ کو حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے خصوصی فیض حاصل ہے، چنانچہ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ جس وقت جنگل میں مصروف عبادت تھے، اچانک آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ آسمان سے ایک عظیم نور ظاہر ہوا؛ جس سے سارا عالم روشن ہوگیا، آپ نے فرمایا کہ آج سے پانچ سو سال بعد جب بے دینی اور بگاڑ پھیل جائے گا، ایک بزرگ وحید امت پیدا ہوگا؛ جوالحاد و بے دینی کے خلاف آواز اٹھائے گا اور دین اسلام کونئی زندگی دے گا، آپ نے اپنے خرقۂ خاص کو نعمتوں سے مالامال کرکے اپنے شہزادے حضرت سید عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ کو عطا فرمایا، وہ خرقہ آپ کی اولاد میں منتقل ہوتا رہا؛ یہاں تک کہ حضرت سید شاہ سکندر قادری رحمۃ اللہ علیہ نے وہ خرقۂ نعمت حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو عطا کی۔
(روضۃ قیومیہ۔جواہر مجددیہ،ص:13)
(8)تذکرۂ امام ربانی کی اہمیت‘حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی کی نظر میں:
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ’’اخبار الاخیار‘‘میں رقم طراز ہیں: ترجمہ: کتاب اخبار الاخیار مکمل ہوئی لیکن حقیقتاً اس وقت پایۂ تکمیل کو پہنچے گی جبکہ زبدۃ المقربین ،قطب الاقطاب ،مظہر تجلیات الہٰی ،مصدر برکات لامتناہی ،امام ربانی ، مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے کچھ حالات تحریر نہ کئے جائیں۔
مجھ مصنف کو آخری عمر میں آپ سے نسبت حاصل ہوئی اس لئے آپ مقدم ترین کاملین و سابق ترین واصلین الی اللہ کا تذکرہ اس کتاب کے آخر میں ہی زیادہ مناسب ہے اور اگر حقیقت پر نظر کی جائے تو اول وآخر سب ایک ہی چیز ہے، میرا آپ سے رجوع ہونا ثقہ حضرات کی زبانی مشہور بات ہے جیساکہ کتاب کے آخر میں ان شاء اللہ بیان ہوگا-
(اخبار الاخیار،ص728)۔
(9)کرامات :
آپ کی کرامات بے حد و بے شمار ہیں،ایک وقت معین پر دس جگہ کی دعوت قبول فرمائی، وقت مقررہ پر ہر ہرشخص کے پاس کھانا تناول فرماتے نظر آئے۔
کلمہ حق کہنے کی وجہ سے جہانگیر نے جب آپ کوقید کیا تو باوجود سخت پہرہ چوکی، جمعہ کے لئے مسجد میں آتے اور بعد اس کے قیدخانے تشریف لے جاتے، پہرہ والے جوانوں کوخبر بھی نہ ہوتی کہ آپ باہر کب آئے اور قید خانہ میں واپس کب ہوئے۔
بادشاہ موصوف نے کئی بار آپ سے یہ کرامت دیکھی، نہایت معتقد ہوکر معذرت کرتے ہوئے قید سے رہا کیا، جس وقت آپ محبس (قیدخانہ)سے نکلے تو دیگر تو سینکڑوں قیدی پر آپ کی فیض صحبت کا ایسا اثر ہوا کہ وہ قیدی اہل دل اور اولیاء کرام سے ہوگئے تھے-
ایک مرتبہ بارش کے موقع پر آپ نے بادل کو حکم فرمایا کہ مخصوص مدت تک بارش نہ ہو تو بارش اس مدت تک رکی رہی ۔
اور آپ کی بہت بڑی کرامت تو شریعت پر استقامت تھی ،جسکو آپ نے اپنے کسی مکتوب میں اس طرح تحریر فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص باوجود ہوا پر اڑنے اور پانی پر چلنے کے ایک مستحب بھی ترک کیا ہوتو وہ نقشبندی اولیاء اللہ کے نزدیک جَوْ، برابر قدر و منزلت نہیں رکھتاہے۔
اتباع سنت آپ پراس طرح غالب تھی کہ جب آپ کی عمرشریف (50) سال کی ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ ہماری عمر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمرشریف سے بڑھ نہیں سکتی، ہم بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مطابعت میں ترسٹھ(63) سال کی عمرمیں دنیاسے کوچ کرجائیں گے۔
ایساہی ہوا، ماہ محرم 1034ھ میں ایک روز آپ نے فرمایا کہ( پچاس روز کے بعد ہم اس عالم سے کوچ کرنے والے ہیں، مجھے میری قبر کی جگہ بتلائی گئی ہے)
(10)ارشادات وفرمودات:
▪ ﴿اتباع سنت‘عین سعادت﴾
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دونوں جہاں کی سعادت کا حصول آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع پر منحصر ہے۔
اور فرماتے ہیں کہ آخرت کی نجات اور ہمیشہ کی فلاح و بہبود حضرت سیدالاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ہے۔ اُسی کے ذریعہ بندے اللہ تعالیٰ کی محبوبیت میں پہونچتے اور تجلیات ربانی سے مشرف اور مرتبۂ عبدیت (جو کمال کے مرتبہ سے اوپر مقام محبوبیت کے بعد ہے) سے سرفراز ہوتے ہیں۔
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد نقشبندی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سالک کے لئے ضروری ہے کہ اپنے عقائد کو فرقۂ ناجیہ اہل سنت و جماعت کے موافق درست رکھے تاکہ آخرت کی سعادت نصیب ہو، بد اعتقادی جو اہل سنت و جماعت کے خلاف ہے زہر قاتل ہے جو دائمی موت و عتابِ الٰہی تک پہنچا دیتی ہے۔ عمل کی سستی اور غفلت پر مغفرت کی امید ہے لیکن اعتقاد کی خرابی میں مغفرت کی گنجائش ہی نہیں۔
﴿ظاہر وباطن کی ترقی کی راہ﴾
علمائے اہل سنت وجماعت نے فرمایا ہے کہ اول اپنے عقیدہ کو ان بزرگوں کے عقائد کے موافق درست کرکے علمِحلال و حرام ،فرض و واجب ،سنت و مستحب ،مباح و مشتبہ حاصل کرنا اور اس علم کے مطابق عمل کرنا بھی چاہئے۔ ان دو پروں کا حصول عملی اور اعتقادی طور پر حاصل ہونے کے بعد اگر سعادت ازلی مدد دے تو عالمِ قدس کی طرف پرواز کرے۔ اور حقیر دنیا تو اس قابل نہیں ہے کہ اس کو اور اس کے مال و جاہ کے حاصل ہونے کو اصلی مقصود خیال کرے۔
امام ربانی حضرت شیخ احمد نقشبندی سرہندی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ غافل اور بدعتی لوگوں کی عزت نہ کیا کرو! جس نے ایسوں کی تعظیم کی تو اس نے گویا اسلام کو بے عزت کرنے میں مدد کی۔
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر طعام مشتبہ ہو یا دعوت کے مکان میں تصاویر ہوں یا وہاںفرش ریشمی ہو یا ظروف چاندی کے ہوں یا ساز کی قسم سے کوئی چیز ہو، یا لہو ولعب اور غیبت و بہتان کی مجلس ہو ان تمام صورتوں میں دعوت ہرگز قبول نہیں کی جانی چاہئیے۔
حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ تعلیم دین کو تلقین سلوک کے مقابلہ میں بہتر سمجھتے تھے۔
نبوت کو ولایت سے افضل جانتے تھے۔
تمام اولیاء رحمہم اللہ پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فضیلت دیتے تھے ۔
•آپ رحمۃ اللہ علیہ مزار کو سجدہ کرنا حرام سمجھتے تھے ۔
زیارت قبور کو مستحسن، اولیاء اللہ سے مدد چاہنے کو درست اور ایصال ثوابِ عباداتِ مالی و بدنی کو جائز قرار دیتے تھے۔ (ملخص از:مواعظ حسنہ،جلد دوم)
سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے زمانۂ مبارک سے قیامت تک جتنے اولیاء،ابدال،اقطاب،اوتاد،نقباء،نجباء،غوث یا مجدد ہوں گے‘سب فیضان ولایت وبرکات طریقت حاصل کرنے میں حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے محتاج ہوں گے، بغیر ان کے واسطہ اور وسیلہ کے قیامت تک کوئی شحص ولی نہیں ہوسکتا۔
(مکتوبات امام ربانی ،جلداول،ص:323،مکتوب نمبر:266)
مسلمان کہلانے والے بد مذہب کی صحبت کھلے ہوئے کافر کی صحبت سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔
(مکتوبات امام ربانی ،جلداول،ص:133،مکتوب نمبر:54)
مجلس میلاد شریف میں اگر اچھی آواز سے قرآن پاک کی تلاوت کی جائے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت شریف اور صحابہ کرام واہل بیت عظام، اولیاء اعلام رضی اللہ عنہم کی منقبت کے قصیدے پڑھے جائیں تو اس میں کیا حرج ہے؟۔
(مکتوبات امام ربانی ،جلد سوم،ص:427،مکتوب نمبر:72)
علماء کے لئے دنیا کی محبت اور اس میں رغبت کرنا ان کے جمال کے چہرے کا بدنما داغ ہے۔ مخلوقات کو اگرچہ ان سے بہت سے فائدے حاصل ہوئے ہیں، لیکن ان کا علم ان کے اپنے حق میں نفع بخش نہ ہوا۔ یہ علماء پارس کے پتھر کی مانند ہیں کہ تانبے، لوہے کی جو چیز بھی اس کے ساتھ رگڑ کھاتی ہے سونا ہوجاتی ہے، اور وہ خود اپنی ذات میں پتھر ہی رہتا ہے۔
بیشک قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ عذاب کا مستحق وہ عالم ہے جس کو اللہ تعالی نے اس کے علم سے کچھ نفع نہ دیا۔
(مکتوبات امام ربانی،جلد اول،ص:95،مکتوب نمبر:33)
(11)وصال مبارک:
روزسہ شنبہ 28 صفر 1034ھ میں آپ نے مسنون طریقہ کے موافق سیدھی کروٹ لیٹ کر دست مبارک اپنے رخسار کے نیچے رکھے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ سب کچھ اعمال صالحہ کئے مگر ایک وقت جو دو رکعت نماز میں نے پڑھی ہے وہ آج کافی ہو رہی ہے ،یہ فرمایا اور اشراق کی نماز ادا فرمانے کے بعد آپ کی روح مبارک اعلٰی علیین کو روانہ ہوگئی، لفظ صلٰوۃ پر ہی خاتمہ ہوگیا، اور یہی صلوٰت نسبت انبیاء علیہم السلام کی ہے ۔
آپ کی تاریخ رحلت ’’رَفِیعُ المَرَاتِبْ‘‘ نکالی گئی ہے ۔
نَوَّرَ اللّہُ مَضْجَعَہُ وَقَدَّسَ سِرَّہُ
(اللہ تعالٰی ان کی قبرکو نورانی کرے اور ان کے سِرْ کو پاک کرے)۔
اللہ تعالٰی سے دعاء ہے کہ بطفیل حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں عقائد حقہ پر قائم رکھے اور حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات وہدایات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور آپ کے فیوض وبرکات سے ہم سب کو مالا مال فرمائے۔
آمِیْن بِجَاہِ طٰہٰ وَیٰسٓ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی وَبَارَکَ وَسَلَّّمَ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔