(گیارہویں شریف کی حقیقت کیا ہے ؟)
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُمسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ گیارہویں شریف ربیع الثانی میں منانے کی کیا وجہ ہے جبکہ گیارہ کو نہ آپ کی ولادت ہے نہ وصال کی تاریخ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
المستفتی:۔عبداللہ قادری
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجوابـــ بعون الملک الوہاب
حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ودیگر بزرگان دین کی نذر ونیاز کسی بھی دن کسی بھی مہینے میں کسی بھی تاریخ میں دلانا جائز ومستحسن وباعث سعادت ہے دن تاریخ کی تخصیص عرفی ہے نہ کہ شرعی گیارہویں ربیع الآخر کو حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نیاز دلانا اس لئے زیادہ لوگ مناسب سمجھتے ہیں کہ عامۃ المسلمین کے عرف کے مطابق ہے رہا گیارہ ربیع الآخرکی تاریخ میں نہ آپ کی ولادت ہوئی نہ وفات ہوئی تو آپ کی تاریخ وفات میں اختلاف ہے بعض علماء کے نزدیک ۱۱ ربیع الآخر کو وفات ہوئ بعض علماء کے نزدیک ۱۷ربیع الآخر کو لہذا کسی خصوصیت کےسبب ایک تاریخ کاتعین جب کہ اسے شرعاواجب نہ جانے تو شرعاً کوئی قباحت نہیں اور جو لوگ خاص گیارہ تاریخ کاہوناشرعا ضروری جانے محض غلطی پر ہے۔جیساکہ حضور صاحب فتاوی امجدیہ حضرت علامہ ومولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عوام جو حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر جو فاتحہ دلائی جاتی ہے اس کو مطلقاً گیارہویں کی فاتحہ کہتے ہیں گیارہویں کی فاتحہ کہنے سے عوام کا صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ یہ فاتحہ پیران پیر کی ہے یہ نہیں کہ خاص گیارہ ہی کی تاریخ میں دلائی جائگی یہاں تک کہ دوسری تاریخوں میں جب حضور غوث الاعظم کے نام کی فاتحہ دلاتے ہیں تو اسکو بھی گیارویں کی فاتحہ ونیاز بولتے ہیں معلوم ہوا کہ کوئی بھی تخصیص ممنوع کا قائل نہیں اور یہ مانعین کا افترا اور بہتان ہے کہ مسلمان اس میں تخصیص کے قائل ہیں حقیقت الامر یہ ہے کہ اس قسم کی جتنی تخصیصات ہیں عرفی تخصیصات ہیں کوئی اسے شرعی تخصیصات نہیں جانتا لوگوں نے اپنے آسانی کے لحاظ سے ایسی خصوصیت مقرر کر رکھی ہے اور اس خصوصیت کو غیر بھی جائز جانتے ہیں اور ایسی خصوصیت میں کوئی قباحت نہیں۔(فتاوی امجدیہ جلد ۱ صفحہ ۳۵۴ باب الجنائز مکتبہ رضویہ آرام باغ روڈ کراچی)
سیدی سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ گیارہویں شریف اپنے مرتبہ فردیت میں مستحب ہے اور مرتبہ اطلاق میں کہ ایصال ثواب ہے سنت ہے اورسنت سے مراد سنت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور یہ سنت قولیہ مستحبہ ہے سنیوں میں کوئی اسے خاص گیارہویں تاریخ ہو نا شرعا واجب نہیں جانتا اور جو جانے محض غلطی پر ہے ایصال ثواب ہر دن ممکن ہے اور کسی خصوصیت کے سبب ایک تاریخ کا التزام جبکہ اسے شرعاً واجب نہ جانے مضائقہ نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر پیر کو نفلی روزہ رکھتے کیا اتوار یا منگل کو رکھتے تو نہ ہوتا یا اس سے یہ سمجھا گیا کہ معاذاللہ حضور نے پیر کا روزہ واجب سمجھا یہی حکم تیجے اور چہلم کا ہے۔(فتاوی رضویہ جلد ۹ صفحہ ۶۰۶ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن)واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ
محمد راحت رضا نیپالی
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔