AD Banner

{ads}

(کیااستاد کی مار سے جہنم کی آگ حرام ہو جا تی ہے؟)

 (180)
(کیااستاد کی مار سے جہنم کی آگ حرام ہو جا تی ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ

مسئلہ:۔ کیا فر ما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ تعلیمی دور میں جو طالب علم کو اساتذہ مارتے ہیں اس پر کیا حکم ہے؟ہم نے بچپن میں سنا تھا کہ جس جگہ پر استاد کی مار لگتی اس کو جہنم کی آگ نہیں جلا سکتی کیا یہ بات صحیح ہے؟جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں                          المستفتی:۔سرفراز احمدبنگلور

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 الجواب  بعون الملک الوہاب 

استادکی مار جہاں لگتی ہے اس جگہ کو جہنم نہیں جلا ئے گی یہ من گڑھت اور جھوٹ ہے اس کی کو ئی حقیقت نہیں غالباً بچوں کو تسلی دینے یا صبر کرنے کی غرض سے والدین بچوں سے ایسا کہتے ہیں فقیر نے بچپن سے یہی سنا ہے مگر شریعت میں اس کی کچھ اصل نہیں ہاں بوقت ضرورت اساتذہ بچوں کو مار سکتے ہیں مگرہاتھ سے ناکہ ڈنڈے وغیرہ سے اور ایک ساتھ میں تین ضرب سے زائد بھی نہیں مارنا چا ہئے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے منع فرمایاہے۔

سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ ضرورت پیش آنے پر بقدر حاجت تنبیہ، اصلاح اور نصیحت کے لئے بلاتفریق اجرت وعدم اجرت استاد کا بدنی سزادینا اور سرزنش سے کام لیناجائزہے مگریہ سزالکڑی ڈنڈے وغیرہ سے نہیں بلکہ ہاتھ سے ہونی چاہئے اور ایک وقت میں تین مرتبہ سے زائد پٹائی نہ ہونے پائے، چنانچہ فتاوٰی شامی میں ہے کہ کسی آزاد بچے کو اس کے والد کے حکم سے مارناجائزنہیں لیکن استاد تعلیمی مصلحت کے تحت پٹائی کرسکتاہے۔ امام طرسوسی نے یہ قید لگائی ہے کہ مارپیٹ زخمی کردینے والی نہ ہو اور تین ضربوں سے زائد بھی نہ ہو۔

’’ درجامع الصغار استروشنی است ذکر والدی رحمۃ اﷲ تعالٰی من صلٰوۃ الملتقط اذا بلغ الصبی عشر سنین یضرب لاجل الصلٰوۃ بالید لابالخشب ولایجاوز الثلث وکذا المعلم لیس لہ ان یجاوز الثلث قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لمرداس المعلم ایاک ان تضرب فوق الثلث فانک اذا ضربت فوق الثلث اقتص اﷲ منک‘‘جامع صغار استروشنی میں ہے میرے والد رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے بحث صلٰوۃ ملتقط میں ذکر فرمایا کہ جب بچے کی عمردس سال ہوجائے تو نمازی بنانے کے لئے اسے ہاتھ سے سزادی جائے لاٹھی سے نہیں اور تین مرتبہ سے تجاوز بھی نہ کیاجائے۔ یونہی استاد کے لئے روانہیں کہ تین مرتبہ سے تجاوز کرے حضوراکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے استاد کابچوں کو مارنے کے بارے میں فرمایا تین مرتبہ سے زائد ضربیں لگانے سے پرہیزکرو کیوںکہ اگر تم نےتین مرتبہ سے زیادہ سزا دی تو اﷲ تعالٰی قیامت کے دن تم سے بدلہ لے گا۔(احکام الصغار مسائل الصلٰوۃ دارالکتب العلمیہ بیروت ؍ص۱۶؍،فتاوی رضویہ جلد ۲۳ ؍ص  ۶۵۳؍۶۵۴؍دعوت اسلا می )

علامہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں کہ کسی گناہ پر بغرض تادیب جو سزا دی جاتی ہے اس کو تعزیرکہتے ہیں شارع نے اس کے لیے کوئی مقدار معین نہیں کی ہے بلکہ اس کو قاضی کی رائے پر چھوڑا ہے جیسا موقع ہو اس کے مطابق عمل کرے۔ تعزیر کا اختیارصرف بادشاہ اسلام ہی کو نہیں بلکہ شوہر بی بی کو آقا غلام کو ماں باپ اپنی اولاد کو استاذشاگرد کو تعزیر کرسکتا ہے(مار سکتاہے)(ردالمحتارکتاب الحدود،باب التعزیر،ج۶،ص۹۵،وغیرہ بحوالہ بہار شریعت ح ۹ سزاؤں کا بیان )

خلاصہ کلام یہ ہے کہ استاد شاگرد کو تعلیم یا ڈرانے کی غرض سے تین تھپڑ تک مار سکتا ہے وہ بھی ہاتھ سے نہ کہ لاٹھی ڈنڈاسے ۔یونہی منھ پر بھی نہیں مارنا چا ہئے کیونکہ نبی کریم  ﷺ نے منھ پر مارنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے (وعن جابر قال : نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن الضرب في الوجه وعن الوسم في الوجه . رواه مسلم)اور حضرت جابررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے منہ پر مارنے اور منہ پر داغ دینے سے منع فرمایا ہے یعنی کسی آدمی یا جانور کے منہ پر طمانچہ یا کوڑا وغیرہ نہ مارا جائے اور نہ کسی کے منہ پر داغ دیا جائے۔ ( مشکوٰۃ المصابیح باب منہ پر مارنے یا منہ کو داغنے کی ممانعت حدیث نمبر۳۹۸۰)

یونہی بغیر قصور کے مارنا یا تین ضرب سے زائد مارنا شرعاً جا ئز نہیں ہےاستاد کو چا ہئے کہ بالغ شاگرد سے معافی مانگے اور اگر نابالغ شاگرد ہو تو ان کے والدین سے یا پھر بالغ ہو نے کے بعد معافی مانگے ورنہ یوم آخرت استاد کی پکڑ ہو گی ۔

لہذا اساتذہ کو چا ہئے کہ شاگرد کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آ ئیں نرمی سے سمجھا ئیں جیسے ڈاکٹر مریض کا علاج کرتا ہے اگر چہ مریض ڈاکٹر کو گالی دے برا بھلا کہے اگر ڈاکٹر مارنا پیٹنا شروع کردے تو پھر علاج کیسے کرے گا ۔یونہی استاد کو بھی چا ہئے کے مثل ڈاکٹر غصہ کو قابو کرکے نرمی سے سمجھا ئے۔واللہ تعا لیٰ اعلم 

کتبہ 

فقیر تاج محمد قادری واحددی 



فتاوی مسائل شرعیہ 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner