AD Banner

{ads}

(کیا اللہ عرش پر مستوی ہے؟)

 (کیا اللہ عرش پر مستوی ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ اللہ سبحانہ تعالی عرش پر مستوی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے الرحمٰن علی العرش الستوی دوسری جگہ ہے ثم الثتوٰی علی العرش اہل سنت کیا عقیدہ ہے عالی وقار برائے کرم مدلل مفصل بحوالہ جواب دیں عین نوازش ہوگی ۔      المستفتی:۔غلام حسین۔
  وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
  صاحب فتاوی رضویہ حضور سیدی سندی الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں حاشا ﷲ ( یہ ہر گز عقیدہ اہلسنت کا نہیں،وہ مکان و تمکن سے پاک ہے نہ عرش اس کا مکان ہے نہ دوسری جگہ عرش و فرش سب حادثات ہیں اور وہ قدیم ازلی ابدی سرمدی جب تک یہ کچھ نہ تھے کہاں تھا،جیسا جب تھا ویسا ہی اب ہے اور جیسا اب ہے ویسا ہی ابدالآباد تک رہے گا عرش و فرش سب متغیر ہیں حادث ہیں،فانی ہیں اور وہ اور اس کی صفات تغیرو حدوث وفنا سب سے پاک استواء پر اجماع نقل کرنے کی کیا حاجت،خود رحمن عزوجل فرماتا ہےاَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی‘‘ وہ بڑا مہروالا اس نے عرش پر استواء فرمایا جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔
  مگر اعتقاد اہلسنت کا وہ ہے جو ان کے رب عزوجل نے راسخین فی العلم کو تعلیم فرمایا:وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ یَقُولُونَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّا اُولُوا الاَلْبابِ‘‘اور وہ پختہ علم والے کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے سب ہمارے رب کے پاس سے ہے اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے ۔
  اعتقاد اہل سنت کا وہ ہے جوام المومنین ام سلمہ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا الاستواء معلوم والکیف مجہول والایمان بہ واجب و السؤال عنہ بدعۃ ‘‘ استواء معلوم ہے اور کیفیت مجہول،اور اس پر ایمان واجب،اور اس کی تفتیش گمراہی۔(القرآن الکریم ۲۰/ ۵؍القرآن الکریم ۳/ ۷ الدرالمنثور تحت الآیۃ ۷/ ۵۴ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۴۲۹،فتح الباری کتاب التوحید باب قولہ وکان عرشہ علی الماء مصطفی البابی مصر ۱۷/ ۱۷۷)
  اہلسنت کے دو ۲ مسلہ آیاتِ متشابہات میں ہیں سلف صالح کا مسلہ تفویض کا،ہم نہ ان کے معنی جانیں ن ان سے بحث کریں جو کچھ اُن کے  ظاہر سے سمجھ میں آتا ہے،وہ قطعًا مراد نہیں اور جو کچھ ان کے رب عزوجل کی مراد ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں ( کُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا) ہم سب اس پر ایمان لائے سب ہمارے رب کے پاس سے ہے۔دوسرا مسلہ متاخرین کا کہ حفظ دین عوام کے لیے معنی محال سے پھیر کر کسی قریب معنی صحیح کی طرف لے جائیں،مثلًااستواء بمعنی استیلا بھی آتا ہے ( قد استوی بشر علی العراق  من غیر سیف اودم مھرا ق؛۔تحقیق بشر عراق پر غالب آگیا تلوار کے ساتھ خون بہائے بغیر۔ت) مگر یہ مسلک باطل کہ آیات معیت تو تاویل پر محمول ہیں اور آیت استواء ظاہر پر یہ ہر گز مسلہ اہل سنت نہیں،عرش پر ہے دوسری جگہ نہیں،یہ صاف تمکن کو بتارہا ہے عرش پر معاذ ﷲ اس کے لیے جگہ ثابت کی جب تو اور مکانات کی نفی کی، عالمگیریہ طریقہ محمدیہ حدیقہ ندیہ تاتارخانیہ خلاصہ جامع الفصولین خزانۃ المفتین وغیرہا میں تصریح ہے کہ رب عزوجل کے لیے کسی طرح کسی جگہ مکان ثابت کرنا کفر ہے متاخرین حنابِلہ میں بعض خبثاء مجسمہ ہوگئے جیسے ابن تیمیہ وابن قیم ابن تیمیہ کہتا ہے کہ میں نے سب جگہ ڈھونڈا کہیں نہ پایا اور معدوم ہے ان دونوں میں کچھ فرق نہیں یعنی جو کسی جگہ نہیں ہے وہ ہے ہی نہیں لیکن رب عزوجل تو معاذ ﷲ ضرور کسی جگہ ہے،اس احمق سفیہ کو اگر مادی اور مجردعن المادہ کا فرق نہ معلوم ہو تو وہ سیف قاطع جو اوپر ہم نے ذکر کی اس کی گردن کاٹنے کو کافی جگہ حادث ہے جب جگہ تھی ہی نہیں کہاں تھا وہ شاید یہ کہے گا کہ جب جگہ نہ تھی وہ بھی نہ تھا یا یہ کہے گا کہ جگہ بھی قدیم ازلی ہے اور دونوں کفر ہیں جب اُس کا معبود اس کے نزدیک بغیر کسی جگہ میں موجود ہوئے نہیں ہوسکتا تو جگہ کا محتاج ہوا اور جو محتاج ہے الله نہیں تو حقیقۃً ان پر انکار خدا ہی لازم ہے ایسے عقیدے والے کے پیچھے نماز ممنوع و ناجائز ہے۔(فتاوی رضویہ شریف جلد نمبر ۲۹ جدید صفحہ نمبر ۱۱۷ / ۱۱۸)واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد صفی اللہ خان رضوی
الجواب صحیح والمجیب نجیح
محمد نسیم رضا رضوی سلامی


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner