AD Banner

{ads}

(مجیبین کے لئے انمول تحفہ)

(مجیبین کے لئے انمول تحفہ)

ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی

(نظر ثانی )

خلیفۂ حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا الشاہ مفتی سید شمس الحق برکاتی مصباحی صاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ قاضی شرع گووا اسٹیٹ الہند

بسم الله الرحمٰن الرحیم
 نحمده و نصلى على حبيبه الكريم صلى الله تعالى عليه وسلم

اما بعد،یہ رسالۂ منیفہ جسے خلیفۂ ارشد ملت مکرمی و محبی مولانا تاج محمد واحدی صاحب زیدت معالیہ نے زمانی تقاضوں کے پیشِ نظر ترتیب دیا ہے دورِ قدیم سے ترتیبِ فتاویٰ کے اصول و ضوابط کا لُبِّ لباب ہے جو آسان فہم ہونے کے ساتھ ساتھ جماعتِ مجیبینِ مسائل شریعت کے لئے فی زماننا لازم العمل ہے۔

پس اگر واقعی ان اصولوں کا لحاظ فرماتے ہوئے مجیبین جواب ترتیب دینا لازم فرمالیں تو ان کے جواب باصواب اور عام فہم نیز دلنشین ہوں گے۔اور ان سے غفلت کوتاہی و قصور کا امکان اور جواب میں نقصان بڑھا دیں گے۔اور یہی اصول اصطلاح میں رسم المفتی یا اصولِ افتاء کہلاتے ہیں انہیں مد نظر رکھنا ہر مجیب کی بہتر جوابی صلاحیت کا غماز اور پسندیدہ ہوتا ہےالله تعالیٰ ہمیں اور تمام مجیبینِ مسائلِ شریعت نیز مرتب کو اس پر عامل بنائے اور جملہ مسلمانان عالم کو افادہ و استفادہ کی توفیق بخشے۔آمین آمین آمین یا رب العالمین بجاہ نبیک سید المرسلین صلوات الله و سلامہ علیہ و علیہم اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین
العبد الافقر الی اللہ تعالیٰ
سید شمس الحق برکاتی مصباحی

(تأثرات)


خلیفۂ اعظم فیض یافتگان خلفائے اعلی حضرت ، شمس الطریقہ ، بدرالشریعہ ، غیض الوہابیّہ ، بے تاج بادشاہ ، اسیرتحفّظ ناموس رسالت مآب ﷺ ، ارشدالمشائخ ، ارشدملّت حضرت پیر ابوالبرکات محمّدارشدسبحانی مدظلہ العالی والنورانی( بانی وسرپرستِ اعلی ماہنامہ ارشدیہ )

بسم الله الرحمن الرحیم

مُحبّ گرامی فاضل جلیل مُفتیٕ اہلسنّت ماہر علوم وفنون تاج ملّت حضرت مولانا تاج محمّد واحدی ارشدی مدظلہ العالی نے فتوٰی نویسی کے لئے فقہائے کرام کے بیان فرمودہ جو اصول وضوابط قلمبند فرمائے ہیں ، ماشاء الله تعالی مُجیب حضرات و جملہ اہل علم حضرات کے لئے بہت ہی عمدہ و مُفیدترین ہیں،لہٰذا مجیبین حضرات اس رسالہ کا ضرورمطالعہ کریں۔
فقط والسلام خیرختام
 خلیفۂ مجازفیض یافتگان خلفائے اعلی حضرت
 عبدالمصطفٰی ابوالبرکات محمدارشدسبحانی غفرلہ النورانی
(بانی و سرپرست ماہنامہ ارشدیہ)وخادم تلوکرانوالہ شریف فاضل ضلع بھکر
 خاک نشین خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف ضلع میانوالی پنجاب پاکستان


الحمد اللہ رب العمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم وعلیٰ اٰلہ و صحبہ اجمعین برحمتک یا ارحم الرحمین

فتوی نویسی کے لئے فقہا ئے کرام نے کچھ اصول وضوابط بیان کئے ہیں ،اور اس موضوع پر کئی ایک رسالہ منظر عام پر آچکا ہےہر مجیب پر لازم ہے کہ’’ اُس رسالہ‘‘ کاگہری نظر سے مطالعہ کریں ۔
چونکہ وقت بدلتا رہا ساتھ ہی ساتھ سسٹم بھی بدل گیا مثلاً پہلے کتابوں سے فتوی لکھاجا تا تھا اب اکثر حضرات سافٹویر سے سے مسئلہ اخذ کرتے ہیں ۔پہلے لوگ دار الافتاء جا تے تھے لیکن اب شوشل میڈیا کے ذریعہ سوال ہو تا ہے اور اسی ذریعہ جواب بھی دیا جا تا ہے۔اس لئے ضرورت محسوس ہو ئی کی کیوں نہ آسان زبان میں کچھ تحریر کردوں تاکہ مجیب حضرات کما حقہٗ فائدہ اٹھا سکیں۔لہذا مجیب حضرات کو چاہئے کہ اِس کو بغور پڑھیں بعدہ ٗکچھ قلم بند کریں ۔
(۱)ریا کا ری ذرہ برابر نہ شامل ہو ،اور نہ ہی فتوے کی تعداد بڑھانا مقصد ہو بلکہ اللہ تعا لیٰ جل شانہ اور حضور ﷺ کی رضا حاصل کر نا اور قوم ودین کی خدمت کرنا مقصد ہو۔

(۲)مطالعہ مضبوط ہو عبارت پر گہری نظر ہو۔اس کے لئے روزانہ کم از کم دو وقت مقرر کرلیں ایک وقت میں قرآن مجید مع ترجمہ وتفسیر کا مطالعہ کریں ۔دوسرے وقت میں بہار شریعت مکتبہ دعوت اسلامی کا مطالعہ کریں اور اگر موقع ملے تو فتاوی رضویہ و دیگر فتاؤں کی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہیں ۔جو عبارت نہ سمجھ میں آ ئے اصل ماخذ کی طرف رجوع کریں یا اساتذہ سے معلوم کریں ۔بہتر ہو گا کہ فجر بعد تلاوت قرآن اور نماز عشاء کے بعد بہار شریعت کا مطالعہ کریں۔

(۳)سوال کو پہلے بغور پڑھیں جب تک سمجھ میں نہ آ ئے جواب ہرگز نہ لکھیں ،یونہی کوئی جملہ پڑھنے میں نہ آ ئے یا اس کا مفہوم نہ سمجھ میں آ ئے تو پہلے اسے سمجھنے کی کوشش کریں بعدہٗ جواب لکھیں .

(۴) لکھتے وقت ذہن مکمل حاضر ہو ،اگر کسی معاملات کو لیکر الجھن ہو تو قطعا فتوی نہ لکھیں بلکہ دوسرے وقت کے لئے چھوڑ دیں۔یونہی جس سوال کا جواب معلوم نہ ہو یعنی اس پر کو ئی جزیہ (عبارت) نہ مل رہی ہو اسے چھوڑ دیںکیونکہ ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں ہے ۔بلکہ دوسروں کے حوالے کر دیں۔ غلط لکھنے سے بہتر ہے کہ لاعلمی کا اظہار کر دیں۔ہمارے بزرگوںنے کئی موقع پرلاعلمی کا اظہار کیا ہے ۔

(۵)سوال میں جہاں کہیں لفظی غلطی ہو اسے پہلے درست کریں پھر جواب لکھیں ۔

(۶) ابتداءبسم اللہ الرحمن الرحیم سے کریں پھر دوسرے پیرا گراف میں ’’الجواب ‘‘ یا ’’الجواب بعون الملک الوہاب ‘‘ سے کریں یا اس طرح کو ئی دوسرا جملہ لکھیں ۔ہر جگہ ’’ اللھم ھو الھادی الی الصواب ‘‘ نہ لکھیں بلکہ جہاں ہدایت کی دعا کرنی ہویا راہ راست سے بھٹکے ہؤں کو حق کی طرف لانا ہومثلاً زید شراب پیتا ہے یا زنا کرتا ہے یا دیو بندیوں کے یہاںں جاتا ہے وغیرہ وغیرہ تو اس طرح لکھیں’الجواب بعون الملک الوہاب ھو الھادی الی الصواب ‘یا اتنا اور بڑھا دیں  والیہ المرجع المآب ‘‘ یا اسی کے مثل کو ئی دوسرا جملہ لکھیں۔

(۷) جواب کے ابتداء میں ’’صورت مسئولہ ‘‘یا ’’صورت مستفسرہ ‘‘ہر جگہ نہ لکھیں بلکہ جہاں سوال کی واقعیت مشکوک ہو وہاں لکھیں مثلاً ’’زید نماز پڑھا رہا تھا دوسری رکعت پر بیٹھنے کے بجا ئے کھڑا ہو نے لگا ابھی مکمل کھڑا نہیں ہوا تھا کہ مقتدی نے لقمہ دیا اور امام نے لقمہ لے کر نماز مکمل کردی سجدہ سہو نہیں کیا تو کیا حکم ہے؟

تو اس کے جواب میں یو ں لکھیں ’’صورت مسئولہ میں نماز ہو گئی ۔یہ بھی یاد رہے صورت مسئولہ لکھ کر فورا حکم بیان کی جائے ۔ جیسے صورت مسئولہ میں نماز ہو گئی۔ یا صورت مسئولہ میں نماز نہیں ہو ئی۔ یا صورت مسئولہ میں زید کا فر ہو گیا۔ یا صورت مسئولہ میں زید پر توبہ لازم ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔

صورت مسئولہ میں بہار شریعت میں ہے ۔صورت مسئولہ میں پہلے جان لیں کہ۔ صورت مسئولہ میں عرض ہے کہ ۔ صورت مسئولہ میں معلوم ہوکہ ۔صورت مسئولہ کے تحت فلاں صاحب فرماتے ہیں کہ ۔یہ سب جملے غیر مناسب ہیں یونہی مجیب کے لئے لفظ’’ عرض‘‘ بھی مناسب نہیں۔

 (۸) عربی رسم الخط کے لئے چشمیہ ھا یعنی ’’ھ‘‘ اس کا استعمال کریں جیسے عن ابی ھریرۃ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور اردو رسم الخط کے لئےگول ہا یعنی ’’ ہ‘‘ اس کا استعمال کریں جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یا جیسے (ہوں)اردو رسم الخط میں ھو ،ھے، ھیں ، استعمال ہر گز نہ کریں۔

(۹) جملے کی سیٹنگ کا خاص خیال کریں کہ کہاں کونسا جملہ درست ہے اور کہاں نہیں،

(۱۰)فتوے میں عربی یا اردو گنتی کا استعمال کریں ۔انگریزی گنتی کا استعمال ہر گز نہ کریں ۔

(۱۱)جملہ پورا ہونے پر لفظ کے درمیان خالی جگہ (اسپیس) ضرور دیں کیونکہ بسا اوقات اسپیس نہ دینے کی وجہ سےعبارت مل جا تی ہے اور مفہوم بدل جاتا ہے جیسے’’جو  ان ‘‘ میں اسپیس نہ دیاجا ئے تو ’’جوان ‘‘پڑھنے میں آ ئے گا ۔ یعنی جوانی والاجوان پھر مفہوم بالکل غلط ہوجائے گا۔

(۱۲) یونہی عبارت پو ری ہو نے سے پہلےڈبل اسپیس نہ دیں جیسے لکھنا ہے’’مہندی لگانا ناجا ئز ہے‘‘ تو اس طرح نہ لکھیں’’مہندی لگانا نا   جائزہے‘‘ کہ دیکھنے میں لگتا ہے کہ جائز لکھا ہے حالانکہ ناجائز لکھا ہے تو ہو سکتا ہے کہ پڑھنے والاجائز پڑھے اور خطا کر جا ئے ۔

(۱۳)جس باب سے سوال کا تعلق ہو پہلے اس باب کو مکل پڑھیں بعدہ ٗ قلم بند کریں ۔بسا اوقات ایسا ہو تا ہے کہ شروع میں کچھ تحریر ہو تا ہے اور اسی باب کے اخیر میں کچھ قید کے سا تھ اس کے بر عکس تحریر ہو تا ہے جیسے بہار شریعت ح ۱۰؍مسجد کے بیان میں ہے کہ ’’مسجد کے لئے چندہ کیا اور اس میں سے کچھ رقم اپنے صرف میں لایا اگر چہ یہی خیال ہے کہ اس کا معاوضہ اپنے پاس سے دے دے گا جب بھی خرچ کرنا ناجائز ہے ۔ 

جبکہ اسی باب کے آخر میں ہے کہ ’’مسلمانوں پر کو ئی حادثہ آپڑا جس میں روپیہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے اور اس وقت روپیہ کی کو ئی سبیل نہیں ہے مگر اوقاف مسجد کی آمد نی جمع ہے اور مسجد کو اس وقت حاجت بھی نہیں تو بطور قرض مسجد سے رقم لی جا سکتی ہے ۔اسی طرح بہت ساری مثالیں دی جا سکتی ہیں لہذا پہلے مکمل باب کا مطالعہ کریں پھر قلم بند کریں ۔

(۱۴)ضرورت سے زائد عبارت نقل نہ کریں جتنی عبارت کی ضرورت ہو اسی پر اکتفاء کریں ،یونہی بہار شریعت ،فتاوی رضویہ ،کی اصل اردو عبارت مکمل نقل نہ کریں بلکہ مطالعہ کرکے اپنے انداز میں تحریر کریں تا کہ لکھنے کا ہنر حاصل ہو جا ئے البتہ جو تحقیق صاحب کتاب کی ہو اور وہ دوسری کتابوں میں نہ ہو تو اصل عبارت نقل کرسکتے ہیں۔

(۱۵)اگر سوال میں کئی پہلوں ہو تو ہر پہلو کو مد نظر رکھتے ہو ئے جواب لکھیں مثلا سوال ہوا کہ زید نے قرآن گرا دیا تو کیا حکم ہے ؟تو جواب دونوں پہلو پر ہو کہ اگر زید نے جان بو جھ کر گرا دیا تو کا فر ہو گیا ۔آگے دلیل پیش کردیں ۔ پھر دوسرے پیرا گراف میں لکھیں اور اگر غلطی سے گر گیا ہے تو توبہ کرے ۔یو نہی جتنے پہلو نکلتے ہوں ہر پہلو کا جواب لکھاجا ئے ۔مگر اپنی طرف سے شق نکال کر جواب نہ لکھیں۔

(۱۶)جواب واضح ،عام فہم ،سلیس زبان میں ہو تا کہ کم پڑھا لکھا بھی سمجھ سکے ۔اگر اصل عبارت نقل کرنے کی ضرورت ہو اور ووہ عوام کے سمجھ سے باہر ہو تو ()قوسین بنا کر اس کے اندر آسان جملہ تحریر کردیں ۔

(۱۷) پہلے اپنے انداز میں جملہ سیٹ کریں بعد ہٗ بطور دلیل عبارت نقل کریں یا پھر عبارت نقل کرکے آخر میں عبارت کا خلاصہ کریں۔

(۱۸)قرآن شریف کی آیت کریمہ کاپی کرنی ہو تو تفسیر صراط الجنان دعوت اسلامی کے ایپ سے کریں کیونکہ یہ کمپیوژنگ کرنے میں آسانی سے کام آجا تا ہے ۔اسلام 360   یا اسلام one   ایپ یا دیگر ایپ سے ہر گز نہ کریں کیونکہ اس سے کمپیوژنگ کرتے وقت اعراب غلط ہوجا تا ہے ۔ یونہی ترجمہ کنزلایمان سے لکھیں جو صراط الجنان میں مل جائے گا،اس کے علا وہ کسی اور کا ترجمہ ہر گز نہ نقل کریں۔

(۱۹) بہار شریعت ،فتاوی رضویہ یا کسی اور ایپ سے عبارت کاپی کریں تو جلد ومسئلہ نمبرکے ذریعے اصل کتاب سےپہلے عبارت ملا ئیں بعدہ تحریر کریں اور حوالہ کتاب کے جلد وصفحہ کا دیں سافٹویر کا ہرگز نہ دیں۔

(۲۰) زیادہ لمبا چوڑا فتوی لکھنے سے پرہیز کریں بلکہ مختصر میں مگر جامع تحریر کریں 

(۲۱)علم میں اضافہ کرنے کے لئے کتب فتاوی کے سوالوں کو پڑھیں پھر خود غور و فکر کریں کہ اسکا جواب کیا ہونا چاہئے ؟ بعدہ کتاب کے جواب کو دیکھیں اگر آپ کے سوچ کے مطابق ہے تو الحمدللہ ،اور اگر آپ کے سوچ کے بر عکس ہے تو اس پر مزید غور و فکر کریں کہ ایسا کیوں ہے ؟پھر بھی نہ سمجھ میں آ ئے تو بڑوں سے رابطہ کریں ۔

(۲۲)جواب ختم ہو نے پر ’’واللہ تعالیٰ اعلم‘‘ ضرور لکھیں ’’ھذا ما ظھرلی ‘‘ یا’’ ھذا ما عندی ‘‘ ہر گز نہ لکھیں ۔ کیونکہ یہ جملے اپنی ایسی تحقیق کے لئے لکھے جا تے ہیں جس میں قائل اپنے کو متفرد (تنہا)محسوس کرے۔

(۲۳)نام کے نیچے عربی تاریخ لکھیں اور انگریزی تاریخ  لکھنا ہو تو عربی کے بعد لکھیں۔

(۲۴)جب فتوی مکمل ہو جا ئے تو ایک بار خود پڑھیں جہاں کہیں غلطی نظر آ ئے درست کریں بعدہٗ اپنے سے بڑوں کو دکھا ئیں ۔اگر اس میں کچھ اضافہ کرنے یا کمی کرنے کا حکم دیں ےتو بلا چوں چرا کے مان لیں ،بحث و مباحثہ ہر گز نہ کریں البتہ معلومات حاصل کرنے کے لئے ضرور پو چھیںکہ کس وجہ سے عبارت نکالی گئی یا اضافہ کیا گیا ۔ بعدہٗ شوشل میڈیا پر شیئر کریں 

(۲۵)تصحیح کے لئے جب بڑے بزرگ کہیں تو ان سے ہرگز نہ کہیں کہ آپ خود کر دیجئے بلکہ خود تصحیح کرنے کی کوشش کریں تاکہ طرز فتوی سیکھ سکیں ۔

(۲۶)جو حضرات بہتر فتوی لکھتے ہوں ان کے فتاؤں کا بھی مطالعہ کریں اور غور کریں کہ کہاں کون سا جملہ کیوں کیسے لایا گیا ہے ۔لیکن دوسرے کا فتوی ہر گز کاپی نہ کریں ورنہ ہمیشہ اسی کی عادت بن جا ئے گی ،لہذا لکھنے کی کوشش کریں۔
Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads