AD Banner

{ads}

(کافر کو کافر کہنا شرعاً کیسا ہے؟)

 (کافر کو کافر کہنا شرعاً کیسا ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہکچھ لوگ کہتے ہیں کافر کو کافر نہ کہا جائے ہو سکتا ہے اسلام قبول کر لیں برائے بحوالہ جواب عطا فرمائیں؟
المستفتی:۔ مولانا شمشاد عالم گیاوی بہار

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب

کافر کو کافر جاننا ضروری ہے خدائے تعالی کا ارشاد ہے ( قُل یٰاَیُّھَا الکٰفِرُونَ)  یعنی تم فرماؤ اے کافروں( پارہ نمبر ۳۰ سورۂ کافرون آیت نمبر ۱) 

مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں حکیم الامت حضرت علامہ مفتی یار خان نعیمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ کافروں کو کہنا اسلامی تہذیب ہے کہ حضور نے ان بد بختوں کو بھیا چچا کہہ کر نہ پکارا بلکہ فرمایا اے کافروں۔(حوالہ تفسیر نور العرفان صفحہ نمبر ۹۸۶)

اور حضور فقیہ اعظم ہند صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ مسلمان کو مسلمان کافر کو کافر جاننا ضروریات دین سے ہے کہ جس شخص نے قطعاً کفر کیا ہو اس کے کفر میں شک کیا جائے کہ قطعی کافر کے کافر میں شک بھی آدمی کو کافر بنا دیتا ہے خاتمہ پر بنا روز قیامت اور ظاہر پر مدار حکم شرع ہے اھ ـ مقصود یہ ہے کہ اسے کافر جانو اور پوچھا جائے تو قطعاً کافر کہو نہ کہ اپنی صلح کل سے اس کے کفر پر پردہ ڈالو۔ اھ ـ (حوالہ بہار شریعت حصہ اول ۱ صفحہ نمبر ۴۰ /۴۱  مطبوعہ فاروقیہ بکڈپو دہلی)

لہذا کافر کو کافر ہی کہنا ضروری ہے یہ جملہ ہر گز صحیح نہیں کہ کافر کو کافر نہ کہا جائے کہ نہ معلوم کب اسلام قبول کرلے اس لئے کہ شریعت کا حکم ظاہر پر ہے کہ وہ شخص ابھی کافر ہے تو کافر ہے تو کافر ہی کہنا ضروری ہے ہاں اگر آئندہ اللہ سبحانہ تعالی اس کو ہدایت عطا فرمادے اور ایمان لے آئے تو بلا شبہ اس کو اب مسلمان ہی کہنا ضروری ہے۔ ( فتاوی قادریہ جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۸۲/ ۸۳ کتاب العقائد)واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 
 کتبہ
محمد صفی اللہ خان رضوی 
الجواب صحیح  والمجیب نجیح 
محمد نسیم رضا رضوی سلامی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner