AD Banner

{ads}

(پرتھوی راج کی ماں کی پیشین گوئی اور غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کا اجمیر کی طرف کا سفر شروع کرنا )

 ( پرتھوی راج کی ماں کی پیشین گوئی اور حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کا اجمیر کی طرف کا سفر شروع کرنا )


حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی منزل اجمیر تھی چنانچہ لاہور میں کچھ عرصہ قیام کے بعد آپ اجمیر کی جانب عازم سفر ہوئے۔ آپ کی تشریف آوری سے بارہ برس قبل پرتھوی راج جو کہ ہندوستان کا بادشاہ تھا اسے اس کی والدہ نے آگاہ کر دیا تھا کہ آج سے بارہ برس بعد اجمیر میں ایک درویش اس صورت و شکل اور اس وضع قطع کا چالیس رفقاء کے ساتھ آئے گا۔ اس درویش کے ہاتھوں تیزی سلطنت کا خاتمہ ہوگا۔ پرتھوی راج کی ماں علم نجوم کی ماہر تھی۔ پرتھوی راج نے اسی دور سے اپنا یہ حکم نافذ کر دیا تھا کہ اس تاریخ سے اگر کوئی مسلمان فقیر اس صورت و شکل کا چالیس رفقاء کے ساتھ ہماری سلطنت میں داخل ہو تو اسے فورا قتل کر دیا جائے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی لاہور سے روانہ ہو کر سمانہ پٹیالہ پہنچے تو پرتھوی راج کے سپاہیوں نے آپ کو شناخت کر لیا اور حاکم کو اطلاع کر دی۔ حاکم کے حکم سے سپاہیوں نے از راہ قریب آپ سے عرض کیا کہ اگر ارشاد ہو تو آپ کے قیام کی جگہ تجویز کر دیں۔ حاکم سمانہ نے بھی اظہار عقیدت کے طور پر آپ کی خدمت میں دعوت نامہ بھیجا۔ آپ نے مراقبہ فرمایا اور مراقبہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے حکم ہوا۔

یہ لوگ مکار و دغا باز ہیں۔ ان کی باتوں میں نہ آتا۔ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ہدایت پاتے ہی حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے حاکم سمانہ کی دعوت رد کر دی اور فرمایا۔ ہم فقیر لوگ ہیں اور ایک جگہ قیام نہیں کرتے ۔“

اس کے بعد حضرت خواجہ معین الدین چشتی وہاں سے روانہ ہو گئے۔ سلطان محمود غزنوی کے حملوں سے تو ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ، نفرت کی لہر دوڑی ہوئی تھی۔ سلطان شہاب الدین کی شکست نے ان کے حوصلے بڑھا دیئے۔ تعصب کی اس قدر فراوانی ہو گئی کہ اگر کہیں کوئی مسلمان نظر آ جاتا تو اس کی تکہ بوٹی کر ڈالتے تھے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی سیدھے دہلی پہنچے اور راج مندر اور راج محل کے مابین ڈیرا لگا دیا ۔ آپ اور آپ کے رفقاء کو دیکھ کر سارے شہر میں غیض و غضب کی لہر دوڑ گئی۔

اس زمانہ میں دہلی پرتھوی راج کے قلعہ اور لال کوٹ کے مجموعہ کا نام تھا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے زمانے میں دہلی عین اس مقام پر آباد تھا جہاں قطب الاقطاب حضرت قطب الدین بختیار کا کی کی لاٹھ موجود ہے۔ اس دہلی کی فصیل کا طول چار میل تھا اور دیواروں کی بلندی خندق سے ۲۰ فٹ اور چوڑائی ۔ ۳۰ فٹ تھی۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے دہلی پہنچ کر راج محل اور مندر کے درمیان ڈیرا لگا دیا۔ آپ کے روحانی رعب و جلال کی وجہ سے کسی بے دین کو اذیت پہنچانے کی جرأت تو نہ ہوئی مگر شہر کے معززین کا ایک وفد کھانڈے راؤ حاکم دہلی کے پاس جا کر فریادی ہوا۔ ان مسلمان فقیروں سے دیوتا ناراض ہورہے ہیں اگر ان لوگوں کو اولین فرصت میں شہر بدر نہ کیا گیا تو دیوتاؤں کا قہر تباہی سلطنت کا باعث ہوگا ۔"

کھانڈے راؤ حاکم دہلی نے اس وقت حکم دیا کہ ان فقیروں کو شہر سے نکال دیا جائے۔ حاکم دہلی کھانڈے راؤ کے حکم کی تعمیل کے لئے پولیس کا ایک دستہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے پاس آیا اور آپ سے بات چیت کی اور حالات دریافت کئے گئے۔ اس پولیس افسر اور اس کے سپاہی آپ کے اخلاق و مواعظ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ فورا حلقہ بگوش اسلام ہو گئے اور آپ کے جانثار بن گئے۔ ان لوگوں کے مسلمان ہو جانے سے دوسرے لوگوں میں بھی رغبت پیدا ہوئی اور یوں رفتہ رفتہ چند دنوں میں سینکڑوں راجپوت مسلمان ہو گئے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی بزرگی اور کرامات کا چرچہ سن کر ضرورت مندوں کا تانتا بندھ گیا۔ دہلی میں اسلام کی شمع روشن ہو گئی اور پروانوں کا ہجوم جمع ہونے لگا اور تھوڑے ہی دنوں میں ہندوؤں کی خاصی بڑی تعداد مسلمانوں ہوگئی۔ آپ نے اپنے خلیفہ اعظم قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو تبلیغ و ہدایت کے لئے دہلی چھوڑا اور خود اجمیر کی جانب روانہ ہو گئے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی محرم الحرام ۵۶۱ھ کو اجمیر میں داخل ہوئے اور شہر سے باہر ایک سایہ دار درخت کے نیچے قیام فرمانے کا ارادہ کیا۔ ابھی آپ کے ساتھی سامان بھی نہ رکھنے پائے تھے کہ پرتھوی راج کے ایک فرعون صفت ملازم نے حقارت آمیز لہجہ میں کہا یہاں سامان نہ اتارو یہاں راجہ کے اونٹ بیٹھتے ہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا ہمیں اونٹوں سے کیا غرض وہ یہاں بیٹھتے رہیں گے۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کی معیت میں انا ساگر کے کنارے اس پہاڑی پر تشریف لے گئے جہاں آپ کی چلہ گاہ ہے۔ شام ہوئی تو راجہ کے اونٹ اس جگہ آکر بیٹھ گئے اور ایسے بیٹھے کہ اٹھنے کا نام نہ لیا۔ راجہ کے ملازموں نے بہت کوشش کی، خوب مارا پیٹا مگر وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ یہ ماجرا دیکھ کر ملازم دوڑتے ہوئے راجہ کے پاس آئے۔ ملازموں کی زبان سے آپ کی تشریف آوری اور اونٹوں کا واقعہ سن کر پرتھوی راج کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور وہ تھوڑی دیر سوچ بچار کے بعد کہنے لگا۔ 

 اس مصیبت کا علاج اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ تو اس درویش کے پاس جا کر اپنا سر اس کے قدموں میں رکھ کر شاندار عاجزی کا اظہار کر 

چنانچہ ملازموں نے ایسا ہی کیا اور پرتھوی راج اپنی ماں کی پیشین گوئی سے پہلے ہی خائف تھا اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی اجمیر آمد سے اسے کامل یقین ہو گیا تھا کہ ان کا مقابلہ اس کے بس کا کام نہیں ہے۔ سرحد اور اندرون ملک کے انتظام کے باوجود اس فقیر کا صحیح سالم پہنچ جانا یقینا موت کا پیغام تھا مگر وہ راجہ تھا اور ہندوستان کا سب سے بڑا راجہ ، حکومت، طاقت اور دولت اس کے پاس تھی آپ کے سامنے بلا سبب ہتھیار ڈالنا اس کی شان کے خلاف تھا مگر پھر بھی اپنے دبے الفاظ میں اسے حقیقت اور بے بسی کا اقرار کرنا پڑا اور ملازموں سے یہ بات کہے بغیر نہ رہا گیا کہ ان فقیروں کو راستہ سے ہٹانا آسان کام نہیں ہے۔ اس تازہ مصیبت کا علاج یہی تھا کہ اس فقیر کے قدموں میں سر رکھ کر عاجزی سے کام لے کر اپنا مطلب نکالے تا کہ رسوائی سے بچ سکے۔ ملازموں نے حکم کی تعمیل کی اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے قدموں میں سر رکھ کر معافی مانگی۔ آپ نے فرمایا " برد شترانت برخاستاند"

جاتیرے اونٹ کھڑے ہو گئے ۔" 

ملازموں نے واپس آکر دیکھا تو اونٹ کھڑے تھے۔ ملازموں نے راجہ کو اطلاع کی اور پرتھوی راج اس کرامت کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔

جس وقت حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے انا ساگر کے کنارے سایہ دار پیڑ کے نیچے قیام فرمایا وہاں ایک گوالا راجہ کی گائیں چرا رہا تھا۔ آپ نے گوالے سے فرمایا ہمیں دودھ پلاؤ۔ گوالے نے کہا یہ راجہ کے گایوں کی بچھیاں ہیں اور ان میں سے کوئی بھی دودھ نہیں دیتی ہے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے ایک بچھیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ اس بچھیا کا دودھ لے آؤ۔ گوالا حیرانگی کے عالم میں اس بچھیا پاس گیا اور بچھیا کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا اور دیکھتے ہی دیکھتے بچھیا کے تھن دودھ  سے بھر گئے۔ آپ کی کرامت سے اس بچھیا نے اس قدر دودھ دیا کہ آپ اور آپ کے رفقاء نے سیر ہو کر دودھ پیا۔ آپ کی یہ کرامت دیکھ کر وہ ہندو گوالا مسلمان ہو گیا۔

گزشتہ واقعہ سے کفار کی عاجزی اور بے بسی نمایاں ہو چکی تھی اور یہ حقیقت الم نشرح ہو چکی تھی کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا مقابلہ دشوار ہے ۔ اس لئے جنگ چھوڑ کر برہمنوں نے ایک اور راستہ اختیار کیا اور وہ مندروں کے سب سے بڑے پجاری رام دیو مہنت کے پاس گئے اور اس سے تمام حالات بیان کئے اور مدد کی درخواست کی۔ رام دیو نے ساری کہانی سن کر بڑی دیر تامل کے بعد کہا۔ یہ فقیر بڑا صاحب کمال اور پہنچا ہوا ہے اور میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔"

رام دیو سحر و ساحری کا بھی استاد تھا اس نے کہا۔ ہاں! البتہ ! اس فقیر کا مقابلہ سحر و ساحری سے ممکن ہے۔ چنانچہ رام دیو نے تمام پجاریوں کو سحر کے منتر تعلیم کئے اور انہیں بتلایا کہ ان منتروں کے سامنے یہ فقیر نہ ٹھہر سکے گا۔ سحر و ساحری کی تعلیم کے بعد رام دیو اپنے شاگردوں کے ہمراہ انا ساگر کے کنارے آیا۔ رام دیو سب سے آگے تھا اور اس کے پیچھے تمام پجاری اور شاگرد تھے۔ جس وقت رام دیو اور اس کے شاگردوں نے منتروں کو پڑھنا شروع کیا۔ کسی خادم نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ آپ نے فرمایا۔ سحر کارگر نہ ہوگا ، یہ دیو راہ راست پر آ جائے گا۔

یہ فرما کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی نماز میں مشغول ہو گئے۔ تھوڑی سی دیر میں رام دیو اور اس کے ساتھی آپ کے بالکل قریب آگئے۔ آپ نے نماز سے فارغ ہو کر جونہی اس مجمع پر نظر ڈالی وہ سب اپنی جگہ پر رک گئے۔ ان کی زبانوں پر تالے پڑ گئے اور قوت رفتار و گفتار سلب ہو کر رہ گئی۔

رام دیو، حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو دیکھ کر بید کی طرح تھر تھر کانپنے لگا۔ وہ اپنی زبان سے رام رام کہنا چاہتا تھا مگر زبان سے رحیم رحیم نکلتا تھا۔ یہ حال دیکھ کر پجاریوں نے رام دیو کو نصیحت کرنی شروع کر دی مگر اس کی یہ حالت تھی کہ لکڑی، ڈنڈا اور پتھر جو بھی ہاتھ لگا، پجاریوں پر پل گیا اور بیسیوں پجاریوں کے سر پھاڑ دیئے ، ہاتھ پیر توڑ دیئے جس کے بعد پجاری بھاگ گئے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے ایک خادم کے ہاتھ پیالہ پانی سے بھرا رام دیو کے پاس بھیجا۔ رام دیو بہ شوق تمام پانی پی گیا ۔ پانی کا پینا تھا کہ اس کے دل سے کفر کی ظلمت محو ہو گئی اور وہ آپ جیسے کے قدموں میں گر پڑا، توبہ کی اور مسلمان ہو گیا۔ رام دیو کے مسلمان ہونے سے آپ بہت خوش ہوئے اور اس کا نام شادی دیور کھا۔( حضرت خواجہ غریب نواز کے 100 واقعات ) 

( طالب دعا )

محمد معراج رضوی واحدی براہی سنبھل یوپی ہند





Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner