AD Banner

(قادیانی و بہائی کے ساتھ سنیہ کا نکاح)

(قادیانی و بہائی کے ساتھ سنیہ کا نکاح)

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص پہلے قادیانی تھا اب قادیانی ہونے سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے:میں بہائی ہوں یعنی بہاء اللہ کا معتقد اور اس کے مذہب پر ہوں۔ بہاء اللہ وہ شخص ہے جس کی نسبت اخبار وغیرہ میں لکھا ہے اور بہت مشہور ہے کہ وہ مدعی نبوت تھا۔ جس کا زمانہ عنقریب گزرا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ مسلمہ سنیہ حنفیہ سیّدانی لڑکی کا نکاح شخص مذکور سے شرعاً جائز ہے یا ناجائز؟ بینوا توجروا۔

المستفتی

مقدس حسین۔ نزد جامع مسجد دہلی ۱۳۵۸؁ھ

الجواب بعون الملک الوھاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم۔

قادیانی مرزا کی نبوت کا قائل ختم نبوت کے معنی متواترہ کا منکر اور اس وجہ سے کافر ہے۔ اب اگر بہائی ہو گیا تو اس وجہ سے اس کا کفر اٹھ نہ گیا۔ جب تک کہ وہ اپنے کفر سے توبہ نہ کرے اور ختم نبوت کے معنی متواترہ کو تسلیم نہ کرے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کے بعد کسی نبی جدید کے آنے کے خیال سے تائب نہ ہو‘ اور تمام کفریات سے بیزاری کر کے ازسر نو اسلام نہ لائے مسلمان نہیں ہو سکتا۔ بہائی ہو جانا اس کو کفر سے پاک نہیں کر سکتا۔ بلکہ اب بھی وہ گندے کفر میں مبتلا ہے مرزا نے جس قسم کا دین ایجاد کیا اور ضلالت کی جو راہیں اختیار کیں وہ سب اس کی طبع زاد نہیں ہیں۔ اس نے اپنے زمانہ سے قبل کے بے دینوں دجالوں سے بہت کچھ اخذ کیا اور ان سب کا پس خورہ جمع کر کے ایک دوکان لگائی۔ انہی میں سے بہائی فرقہ بھی ہے تو قادیانی سے بہائی ہو جانا ایک ہی سلسلہ کے کفریات میں گشت لگانا ہے۔ اب سب کی مکاری ختم نبوت کے معنی متواتر کے انکار کو اپنا اصول بنانے سے چلتی ہے۔ ۸۴۵ھ ؁میں جونپور میں ایک شخص ہوا جس کا نام میراں سیّد محمدتھا اس کے باپ کا نام سیّد خاں‘ ماں کا نام بی بی آقا ملک‘ ماں باپ کا نام بدل کر حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے ابوین کریمین کے نام رکھے۔ ماں کا نام آمنہ اور باپ کا نام عبداللہ رکھا‘ اور یہ شخص ’’مہدی‘‘ موعود بنا۔ اس سے بھی کام نہ چلا ماں باپ کے نام جاننے والوں نے اعتراض کیا تو اس نابکار نے حضور اقدس ارو احنا فداہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد کا نام عبداللہ ہونے سے انکار کر دیا‘ اور یہ مکر گھڑا کہ حضور کا اسم گرامی

محمدعبداللہ ہے ابن کا لفظ راویوں کی غلطی سے زیادہ ہو گیا۔ لاحول ولاقوۃ الا باللہ العظیم۔ اس شخص کے معتقدین اس کی مہدیت کی تصدیق کو فرض اور اس کا انکار کفر جانتے تھے۔ لہٰذا وہ بھی اسی راستے پر چلا ہے جس طرح مرزا کے گھر والوں کو اس کے معتقدین ’’اہل بیت‘‘ اور اس کی بی بی کو ’’ام المومنین‘‘ کہہ کر ایوان رسالت کی نقل اتارتے ہیں۔ اسی طرح میراں سیّد محمدکے یہاں خلفاء راشدین پانچ اور صدیق دو‘ اور مبشر بالجنہ ۱۲ اور چوہتر فرقے‘ اور جنگ بدر‘ اور فاطمہ اور حسین ولایت سب بنائے گئے تھے۔ یہ لوگ اپنے گرو میراں سیّد محمدکو خلفاء راشدین اور تمام انبیاء و مرسلین سے افضل اور حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرتبہ میں ہمسر و برابر ٹھہراتے تھے اور اس کو مفترض الطاعہ سمجھتے تھے۔ شریعت طاہرہ کے احکام کا ناسخ اور صاحب شریعت جدید مانتے تھے اس پر وحی آنے کے معتقد تھے چنانچہ ا س کے رسالہ ’’ام العقائد‘‘ میں اس کی وحی یوں لکھی ہے: قال الامام المہدی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علمت من اللہ بالواسطۃ جدید الیوم قل انی عبداللہ تابع محمدرسول اللہ محمدمہدی الزمان وارث نبی الرحمن عالم علم الکتاب والایمان مبین الحقیقۃ والشریفۃ والرضوان۔ اس وحی شیطانی کی زبان اور مضمون بھی قابل دید ہے۔ یہ شخص بلاواسطہ اللہ سے اخذ علوم کا مدعی تھا۔ ہندی میں بھی وحی کا دعویٰ کرتا تھا اور نئے نئے احکام کا نزول بتاتا تھا۔ زکوٰۃ میں بھی بہت سی قطع و بریدیں کی تھیں۔ اس کے عقائد فاسدہ اور مکائد کاسدہ کہاں تک بیان کئے جائیں۔ علماء عرب و عجم اور فضلاء مکہ مکرمہ نے ان لوگوں کے کفر و قتل کے فتوے دیئے اور شاہان اسلام نے انہیں سزائیں دیں اور ہلاک کر دیا۔ پھر اس قسم کا کفر ایران سے پیدا ہوا۔

۱۸۱۹ء ؁میں شیراز میں ایک شخص پیدا ہوا جس کا نام مرزا علی محمدتھا۔ اسی کو باب کہتے ہیں اور اس کے معتقدین اس پر ایمان لانے والے ’’بابی‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ شخص بھی مہدی ہونے کا مدعی تھا اپنے آپ کو مثل حضرت یحییٰ علیہ السلام کے‘ اور ایک شخص اور جس کا لقب اس نے من یظھر اللہ جل ذکرہ رکھا تھا اسے مثل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہتا تھا۔ چنانچہ کتاب ’’بہاء اللہ کی تعلیمات‘‘ کے صفحہ سات ۷ پر اس مرزا علی محمدکا یہ قول مذکور ہے کہ میں یحییٰ ہوں من یظھر االلہ۔ اس مرزا علی محمدباب نے پیغمبری کا بھی دعویٰ کیا۔ بہاء اللہ کی تعلیمات صفحہ ۱۰ میں ہے: ’’سید مرزا علی محمدباب نے بھی پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے‘‘ اس نے اپنی علیحدہ شریعت بنائی تھی۔ کتاب بہاء اللہ کی تعلیمات صفحہ ۱۴ میں اس کا یہ قول موجود ہے: ’’میں نے جو شریعت لکھی ہے اس پر عمل کرنے کا حکم تم کو اسی وقت ملے گا جب کہ من یظھر اللہ ظاہر ہو گا‘ اور شریعت میں سے وہ جس بات کو پسند کرے گا اس پر عمل کرنے کا حکم دے گا‘ اور جس کو وہ ناپسند کرے گا اس کو تم مت کرنا‘‘۔

طہران میں سب سے پہلے مرزا حسین علی اس پر ایمان لایا۔ مرزا علی محمدنے اس کو بہاء اللہ کا لقب دیا۔ مرزا حسین علی عرف بہاء اللہ نے دعویٰ کیا کہ وہ من یظھر اللہ ہے جس کی علی محمدباب نے بشارت دی ہے۔ کتاب بہاء اللہ کی تعلیمات صفحہ ۱۹ میں ہے: ’’ایڈر بانوپل میں بہاء اللہ نے کہا: کہ جس شخص کی بشارت مجھ کو حضرت باب نے دی ہے‘ اور جس کی راہ میں انہوں نے جان فدا کی وہ میں ہی ہوں۔ من یظھر اللہ میرا لقب ہے‘‘۔ اس بہاء اللہ پر ایمان لانے والے ’’بہائی‘‘ کہلاتے ہیں۔

کتاب مذکور کے صفحہ ۲۰ میں ہے: جنہوں نے حضرت بہاء اللہ کا دعویٰ قبول کیا ان کا نام بہائی ہو گیا۔ بہاء اللہ خدا کی طرف سے بے واسطہ علم ملنے اور مبعوث من اللہ ہونے کا مدعی تھا۔ بہاء اللہ کی تعلیمات صفحہ ۲۵ میں ہے: ’’یکایک خدا کی نسیم لطف مجھ پر گزری اور جو کچھ ابتدا آفرینش سے اب تک ظہور میں آیا اس کا علم اس نے مجھے دیا۔ صفحہ ۲۶ میں لکھا ہے: ’’اسی نے مجھ کو حکم دیا کہ میں اس کے نام کی منادی کر دوں‘‘۔ اس بہاء اللہ نے اپنی نبوت کا سکہ جمانے کے لئے ختم نبوت کا انکار کیا۔ چنانچہ صفحہ ۳۳ میں لکھا ہے: ’’پیغمبروں کا ظاہر ہونا محال اور غیر ممکن نہیں جانتے اور اگر کوئی شخص اس بات کو محال جانے تو پھر اس میں اور ان لوگوں میں کیا فرق ہے جنہوں نے خدا کے ہاتھوں کو بندھا ہوا سمجھا وہ کون؟ جمہور اہل اسلام اور مخصوص اہلسنّت اگر یہ لوگ خداتعالیٰ کو مختار جانتے ہیں تو انہیں لازم ہے کہ اس شہنشاہ ازلی کے ہر حکم کو قبول کریں جو اس کے رسول کی معرفت صادر ہیں‘‘۔ صفحہ ۳۵ میں لکھا ہے: ’’الطاف باری کی ٹھنڈی اور خوشگوار ہوا نے جگا کر مجھے یہ حکم دیا کہ میں زمین و آسمان کے درمیان اس کے نام کی منادی کر دوں۔ یہ بات میں نے خود نہیں کی۔ بلکہ خدا ہی کی طرف سے کی۔ اس کی ہدایت ہوئی تھی‘‘۔ صفحہ ۴۱ پر یہ قول لکھا تھا: ’’میرا علم خدا کا عطا کردہ ہے کسی انسان سے حاصل نہیں کیا ہے‘‘۔ اس بہاء اللہ نے شرع کے احکام کو بھی درہم برہم کر دیا ہے اور نئے حکم اپنے دل سے تراشے ہیں۔ چنانچہ اسی کتاب ’’بہاء اللہ کی تعلیمات‘‘ کے آخر حصہ کے صفحہ ۱۷ میں لکھا ہے: ’’خدا تم کو نکاح کا حکم دیتا ہے مگر خبردار دو سے زائد نہ کرنا‘‘۔ تیسری طلاق کے بعد کی حرمت اور بغیر حلالہ عدم علت کے حکم کی تبدیلی صفحہ ۱۸‘ اسی کتاب کے صفحہ ۴ میں ہے: ’’خدا نے منع کر دیا کہ جو تم تیسری طلاق کے بعد کیا کرتے تھے‘‘۔ گانا باجا سب حلال کر دیا۔ اسی کتاب کے صفحہ ۴ میں ہے: ’’ہم نے حلال کیا تمہارے اوپر گانے اور بجانے کا سننا‘‘۔ اس گروہ کا دستور تقیہ کرنا بھی ہے۔ اسی کتاب کے صفحہ ۴۷ میں اس کا اقرار ہے۔

اتنے بیان سے ظاہر ہو گیا کہ مرزا غلام احمد اور بہاء اللہ ختم نبوت کے معنی متواتر کے انکار میں شریک ہیں‘ دعوئے مہدیت میں شریک ہیں‘ مثل مسیح ہونے کے دعوے میں شریک ہیں‘ رسالت اور وحی کے دعوے میں شریک ہیں۔ تبدیل احکام شرع میں شریک ہیں۔ دونوں کے کافر ہوئے۔ اب بہاء اللہ خود بھی رسول بنتا ہے اور اپنے اوپر وحی آنے‘ بے واسطہ اللہ سے علم پانے کا مدعی ہے‘ اور مرزا علی محمدکو بھی پیغمبر مانتا ہے۔ حلال کو حرام اور حرام کو حلال بھی کرتا ہے۔ کتنے کفروں میں مبتلا اور اپنے معتقدین کو مبتلا کرنے والا ہے۔ یقینا اس کی تصدیق کرنے والے کافر و مرتد خارج از اسلام ہیں۔ شفاء شریف میں ہے:

وکذٰلک قال من تنباء وزعم انہ یوحٰی الیہ قالہ سحنون وقال ابن القاسم دعی الی ذٰلک سرا وجھرا قال اصبغ وھو کالمرتد لانہ کفر بکتاب اللہ مع القربۃ علی اللہ وقال اشھب فی یھودی تنباء اوزعم انہ یوحی ارسل الی الناس اوقال ان بعد نبیکم نبی انہ یستناب ان کان معلنا بذلک فان تاب والاقتل وذلک لانہ مکذب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی قولہ لا نبی بعدی مفتری علی اللہ فی دعواہ علیہ الرسالۃ والنبوۃ

علامہ شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں:: وقدیکون فی ھٰولآء من یستحق القتل کمن یدعی النبوۃ بمثل ھذہ الخرا وبطلت تغیر شی من الشریعۃ ونحو ذٰلک۔

اب ثابت ہو گیا کہ وہ شخص قادیانی تھا جب بھی کافر تھا اور بہائی ہوا اب بھی کافر ہے۔ اس کے ساتھ مسلمہ کا نکاح قطعی نہیں ہو سکتا۔ ہمیشہ حرام ہو گا۔ والعیاذ بااللہ سبحانہ و تعالٰی اعلم وعلم عزاسم اتقن واحکم۔

کتبہ: العبد المعتصم بحبلہ المتین

سید محمدنعیم الدین عفا عنہ المعین

۱۰؍ شعبان المعظم۔ ۱۳۵۸؁ھ





مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad