AD Banner

(درود ابراہیمی پر اعتراض اور اس کا جواب)

 (درود ابراہیمی پر اعتراض اور اس کا جواب)

استفتاء

(۱) نماز میں جو درود پڑھے جاتے ہیں ان میں کون سی ایسی رحمت و برکت ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل میں موجود نہ تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل کے واسطے ابتدائے اسلام سے اب تک برابر مانگ رہے ہیں اور وہ پوری ہونے کو نہیں آتی بظاہر اس سے افضیلت میں نقص پایا جاتا ہے؟

(۲) نبی رسول کی جامع تعریف اور ان کا فرق بتایئے؟

الجواب بعون الملک الوھاب

(۱) سوال نہایت بیہودہ ہے اور عقل و علم سے بہت ہی دور ہے۔ اوّل تو مشبہ بہٖ میں حقیقۃً وجہ شبہ کی کثرت و قوت ضرورنہیں شہرت کافی ہے: کمالا یخفی علی اھل العلم۔ اعتراض تو ختم ہو گیا لیکن اس کو سمجھے تو وہ جس کو علم سے کچھ واسطہ ہو۔ عام آدمی بھی اپنے محاورات میں اتنا سمجھتے ہیں کہ جب ایک کریم بادشاہ دادو دہش پر آئے اور اپنے غلاموں اور حاشیہ برداروں کو انعام دے اس وقت اعیان دولت اور وزرائے سلطنت عرض کریں جیسا کہ ان غلاموں پر کرم ہوا ہے ہم نیاز مندوں پر بھی نظر توجہ ہو‘ تو اس کے یہ معنی نہیں کہ پانچ پانچ روپئے کے ملازموں کو دس دس روپئے انعام دیا گیا ہے تو ان کی مثال پیش کر کے ہم بھی نظر عنایت کے امیدوار ہیں ہمیں سات آٹھ روپئے یا غایت یہ کہ ان کے برابر دس دس روپئے انعام دے دیا جائے۔ ایسا کوئی انتہا درجہ کا بدعقل سمجھے تو سمجھ سکتا ہے ورنہ جسے اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے وہ تو یہی سمجھے گا جس طرح ان کے لئے جیسا انعام شایاں تھا وہ انہیں دیا۔ ایسے ہی ہمارے لئے تیرے کرم سے جو شایان شان ہو وہ ہمیں بھی عنایت فرما تو اب فضیلت میں وہ حاشیہ بردار فائق ہوں گے یا وزراء و اعیان سلطنت۔ اتنی موٹی بات بھی سمجھ میں آ جاتی تو معترض ایسا بھدا بھونڈا لایعنی اعتراض ہرگز نہ کرتا۔ دوئم: یہ بات کس قدر بعید از عقل ہے جو وہ کہتا ہے:ابتدائے اسلام سے سارے مسلمان مانگ رہے ہیں اور وہ پوری ہونے کو نہیں آتی اسی سے اس کو حضور پرنور سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان معلوم ہو جاتی اگر وہ عقل رکھتا ہر عاقل سمجھ سکتا ہے کہ درود شریف حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات اور آپ کی آل کے حق میں دعائے رحمت و برکت ہے‘ اور قرآن پاک میں پروردگار عالم نے اس کا حکم فرمایا تو اگر پروردگار عالم کو اس دعا کا قبول کرنا منظور نہ ہوتا تو وہ مسلمانوں کو کیوں حکم فرماتا اور اس طرح رغبت دلاتا کہ ہم بھی اس محبوب اکرم علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات پر صلوٰۃ نازل فرماتے ہیں‘ ہمارے ملائکہ بھی درود بھیجتے ہیں تم بھی درود و سلام بھیجو۔ تو ظاہر ہے کہ یہ سب دعائیں مقبول اور شرع میں مطلوب اور ان سے اظہار شان سیّد کون و مکان صلی اللہ علیہ وسلم کا منظور اور مسلمانوں کو اس محبوب اکرم کی محبت اور درود و دعا گوئی کی برکتوں سے فیضیاب فرمانا مدنظر تو اب جتنے مسلمان درود بھیجتے ہیں اور حضور کے حق میں رحمت و برکت کی دعائیں کرتے اور قیامت تک کرتے رہیں گے وہ سب مقبول اور مرضیٔ الٰہی کے مطابق‘ اور مسلمان درود میں دعا یوں کرتا ہے کہ اے پروردگار! حضور پرنور سیّد الانبیاء محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پاک پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرما جیسی تو نے سیّدنا حضرت ابراہیم اور ان کی آل پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں تو اگر کوتاہ نظر معترض کے طور پر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ ہر مسلمان حضور اور ان کی آل کے لئے اتنی ہی رحمت و برکت مانگتا ہے جتنی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل کو ملی ہے‘ اور دعا مقبول ہو تو حضور کو ہر ہر مسلمان کی ہر ہر دعا پر رحمتیں و برکتیں ملتی ہیں جتنی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل کو ملیں اور قیامت تک بے شمار مسلمان یہ دعا مانگتے رہیں گے اور پھر ایک ایک مرتبہ ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان عمر بھر اپنے تمام فرائض و نوافل وغیرہ میں یہ دعا مانگتا رہتا ہے تو اب حضور کی رحمت و برکت کی کیا نیابت ہوئی! کریم کارساز کا مقصود ہی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم اور ان کی آل کو جتنی رحمتیں اور برکتیں عطا فرمائی گئیں۔ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر غلام ان کا ذکر کر کے حضور کے لئے ان سے اعلیٰ نعمتیں اور برکتیں مانگا کرے اور ان کی ہر دعا مقبول ہو‘ اور حضور کو ہر دعا کے ساتھ حضرت ابراہیم اور آل ابراہیم سے زیادہ نعمتیں اور برکتیں دی جائیں‘ اور ان کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے۔ اس فضیلت کی کچھ نہایت ہے کم عقل پر افسوس جو اس کو نقصان سمجھ گیا۔

(۲) نبی اس بشر کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لئے وحی بھیجی ہو اور رسول بشر ہی میں منحصر نہیں بلکہ ملائکہ میں بھی رسول ہوتے ہیں۔ ۱؎

۱؎ شرح العقائد میں ہے: الرسول انسان بعث اللہ تعالٰی الی الخلق لتبلیغ الاحکام وقد یشترط فیہ الکتاب بخلاف النبی فانہ اعم ھذا ھو الفرق بین النبی والرسول وھٰذا ھو مذھب الجمھور بقولہ تعالٰی وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی۔

کتبہ

 المعتصم بحبل اللہ المتین

سید محمدنعیم الدین عفا عنہ المعین

۱۲؍ جمادی الاخر‘ ۱۳۲۸؁ھ






مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad