AD Banner

( وہابیوں کے مقتدا ابن تیمیہ کی شرعی تحقیق)

وہابیوں کے مقتدا ابن تیمیہ کی شرعی تحقیق)

استفتاء:کیا فرماتے ہیں: علماء دین و مفتیانِ شرع متین درج ذیل مسئلہ میں کہ ابن تیمیہ کون اور کیسا شخص ہے؟ مذہب کے اعتبار سے اس کا مرتبہ کیا ہے؟ ہندوستان کے اخبار نویس مثلاً ابو الکلام آزاد اس کے اقوال اکثر نقل کرتے ہیں‘ آج کل یزید پلید کی مدح و ثنا میں ابن تیمیہ کا کلام پیش کیا جاتا ہے۔ یہ شخص معتبر تھا یا غیر معتبر؟

المستفتی

احقر محمدظہور

۲۱؍ شعبان المعظم‘ ۱۳۵۴؁ھ

الجواب بعون الملک الوھاب

ابن تیمیہ کو وہابیہ نجدیہ اپنا پیشوا جانتے ہیں اور کبھی اس کے نام کی تصریح کر کے اور کبھی بلا تصریح اس کے اقوال فاسدہ سے تمسک کرتے ہیں۔ ابن سعود جس نے وہابیت کا میگزین ’’مجموعۃ التوحید‘‘ چھاپا ہے اس میں بھی ابن تیمیہ کے رسالے شامل ہیں۔ اس شخص کی نسبت خاتم المحدثین علامہ شیخ شہاب الدین ابن حجر ہیتمی مکی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ حدیثیہ صفحہ ۸۳ میں فرماتے ہیں: ؎

ترجمہ: ’’ابن تیمیہ ایک بندہ ہے جس کو خدا نے رسوا کیا‘ گمراہ کیا‘ اندھا کیا‘ بہرہ کیا‘ ذلیل کیا ائمہ دین نے اس کی تصریح کی جنہوں نے اس کے فساد احوال اور جھوٹے اقوال کا بیان فرمایا جو شخص چاہے وہ امام مجتہدجن کی امامت جلالت رتبۂ اجتہاد کو پہنچی ہے یعنی ابو الحسن سبکی اور ان کے فرزند ارجمند علامہ تاج الدین سبکی اور شیخ امام

عز بن جماعہ اور ان کے زمانہ والے اور ان کے سوا علماء شافعیہ‘ مالکیہ‘ حنفیہ کے کلام کا مطالعہ کرے۔ ابن تیمیہ نے متاخرین صوفیہ پر ہی اعتراض کرنے میں اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس نے حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ اور حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ جیسے اکابر صحابہ پر بھی اعتراض کیا ہے جیسا کہ آتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس کا کلام کچھ وزن نہیں رکھتا بلکہ ویرانہ میں پھینکنے کے لائق ہے اس کے حق میں یہ اعتقاد رکھنا چاہئے کہ وہ بدعتی‘ گمراہ‘ گمراہ کن‘ جاہل‘ غالی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اپنے عدل سے معاملہ کرے اور ہمیں اس کے جیسے عقیدے و طریقے سے بچائے۔ آمین‘‘۔

اس کے بعد علامہ نے ذکر کیا ہے کہ ابن تیمیہ نے کن کن اکابر اسلام و اعلام دین پر اعتراض کئے اور افترا اٹھائے۔ ان میں سے اکابر صحابہ بھی ہیں حتیٰ کہ امیر المومنین امام المسلمین خلیفہ راشد سیّدنا و مولانا عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی شان میں کہا : ان عمر لہ غلطات وبلیات وای بلیات اور امیر المومنین امام المتقین حضرت مولیٰ علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے حق میں کہا ان علیا اخطا فی اکثر من ثلث مائۃ مکان یعنی معاذ اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہت سی غلطیاں اور بڑی بڑی بلائیں‘ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تین سو ۳۰۰ سے زائد غلطیاں کیں۔ معاذ اللہ ولاحول ولا قوۃ الا بااللہ۔

حضرت علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: من این یحصل لک الصواب اذا اخطاء علی بزعمک کرم اللہ وجہہ وعمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کہ تجھے کہاں سے صواب حاصل ہو گیا۔ جب امیر المومنین علی اور عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما تیرے گمان میں خطا کار ہیں۔ اس بے دین نے بہت سے مسائل ایسے گھڑ دیئے۔ اجماع کو توڑ دیا۔ شریعت کے نظام کو درہم برہم کیا جو شخص کہے: ’’علی الطلاق‘‘ اس پر کفارۂ یمین لازم آئے گا اور طلاق نہ ہو گی۔ حالانکہ اس سے پہلے مسلمانوں میں سے کوئی بھی کفارہ کا قائل نہ ہوا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ حائض کی طلاق نہ ہو گی۔ ایسے ہی جس طہر میں قربت ہو اس میں طلاق واقع نہیں ہوتی۔ ایسے ہی یہ مسئلہ کہ نماز عمداً چھوڑ دی جائے تو اس کی قضا واجب نہیں۔ ایسے ہی یہ مسئلہ کہ حائض کے لئے بیت اللہ کا طواف مباح ہے اور اس پر کفارہ نہیں۔ ایسے ہی یہ مسئلہ کہ تین طلاقیں ایک کی طرف رد ہو جاتی ہیں‘ اور اس کا دعویٰ کرنے سے پہلے ابن تیمیہ خود اس کے خلاف پر مسلمانوں کا اجماع نقل کرتا تھا۔ اس کے علاوہ بہت مسائل ہیں جن میں اس نے دین کی مخالفت کی منجملہ ان کے یہ ہے کہ بہنے والی چیزوں میں چوہے وغیرہ کی طرح کوئی جاندار مر جائے تو وہ نجس نہیں ہوتے‘ اور مخالف اجماع نہ کافر ہے نہ فاسق‘ اور رب تعالیٰ محل حوادث ہے تعالی اللہ عن ذالک وتقدس‘ اور یہ کہ باری تعالیٰ مرکب ہے‘ اور اس کی ذات ایسی ہی محتاج ہے جیسا کل جزؤ کا اور قرآن ذات الٰہی میں محدث ہے تعالی اللہ عن ذالک‘ اور یہ کہ عالم قدیم بالنوع ہے‘ اور ہمیشہ اللہ کے ساتھ مخلوق دائم رہا تو اس نے واجب تعالیٰ کو موجب بالذات قرار دیا‘ نہ کہ فاعل بالاختیار۔ جسمیت و جہت انتقال کا قائل ہوا اور یہ کہا کہ خداتعالیٰ بقدر عرش کے ہے نہ چھوٹا نہ بڑا‘ اور انبیاء غیر معصوم ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مرتبہ نہیں‘ ان کے ساتھ توسل نہ کیا جائے۔ ان کی زیارت کے لئے سفر کرنا گناہ ہے‘ اور وہابیہ

نے بھی اس کی خوشہ چینی اور ریزہ خواری کی ہے۔ ایسے ایسے اور اس سے بہت زیادہ ناپاک اور گندے مسائل اس کے ہیں جن کو حضرت شیخ علامہ نے اپنے اسی فتاوے میں ذکر فرمایا ہے۔ دوسری جگہ اسی فتاوے کے صفحہ ۴۴ پر یہی علامہ فرماتے ہیں: ؎

وایاک ان تصغی الی مافی کتب ابن تیمیۃ وتلمیذہ ابن القیم الجوزیۃ وغیرھما ممن اتخذ الا لٰہ ھواہ واضلہ اللہ علٰی علم و ختم علٰی سمعہ وقلبہ وجعل علٰی بصرہ غشاوۃ فمن یھدیہ من سعد اللہ وکیف تجاوز ھٰولآء الملحدون الحدود وتعد والرسوم وخرو اسباح الشریعۃ والحقیقۃ فظنوا بذالک انھم علٰی ھدی من ربھم ولیسوا کذالک بل ھم علٰی اسؤ الضلال واقبح الخصال وابلغ المقط و الخسران وانھی الکذب والبھتان فخذل اللہ متبعھم وطھر الارض من امثالھم۔

ترجمہ: ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد ابن قیم جوزی وغیرہ کی کتابوں پر کان رکھنے سے بچو‘ جنہوں نے اپنی خواہش نفسانی کو اپنا معبود بنایا اور خدا نے اس کو رسوا کیا اور اس کے کان اور دل پر مہر کی اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈالا۔ اس کے بعد اب کون اسے ہدایت کرے گا اور بے دینوں نے کس طرح حدود سے تجاوز کیا اور رسموں سے تعدی کی اور چادر شریعت و حقیقت کو پھاڑ کر یہ گمان کیا کہ وہ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ بدترین گمراہی اور قبیح ترین خصائل اور انتہائی بدنصیبی اور ٹوٹے اور کذب و بہتان میں ہیں۔ اللہ ان کے متبع کو رسوا کرے اور ان کے امثال سے زمین کو پاک کرے۔ آمین۔

ابن تیمیہ کا یہ حال ہے اور ائمہ دین اور مشائخ و محدثین اس کے حق میں ایسا فرماتے ہیں: اہل اسلام ایسے بے دین سے احتراز کریں اور اس کی گمراہ کن تعلیم سے بچیں۔ جو حضرت علی مرتضیٰ کو خطاکار بتاتا ہے۔ یزید کی تعریف و توصیف اس سے کیا بعید۔ ہندوستان کے بے قید جو دین سے آزاد ہو گئے اور ملحدان بے دین کے دام تزویر میں گرفتار ہیں وہ اگر ایسے فاسد العقیدہ شخص کی تقلید کریں تو یہ ان کی بدمذہبی کا ایک ثبوت ہے۔

عاذنا اللہ تعالٰی ایانا و جمیع المسلمین ووقانا وسائرا المومنین عن مکائد الباطلین المفسدین والمانعین من الدین بحرمۃ خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وصحبہ وسلم۔

کتبہ: العبد المعتصم بحبل اللہ المتین

محمدنعیم الدین غفرلہ





مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad