AD Banner

{ads}

(کیا جانور کاداتاہونا بھی ضروری ہے؟)

 (کیا جانور کاداتاہونا بھی ضروری ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
مسئلہ:۔کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ قربانی کے لئے جو بکرہ مقرر کیا گیا ہو وہ ایک سال کا ہونا ضروری ہے تو اسکی قربانی میں کوئی حرج نہیں لیکن وہیں بکر کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ بکرے کا ایک سال کا ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا داتا ہونا بھی ضروری ہے؟
 المستفتی:۔حافظ دلشاد احمد مرزا مقام پلکھائیں پوسٹ کپتان گنج

  وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوہاب

 فتاوی قاضی خان نے لکھا ہے قربانی کے جانور چار قسم کے ہیں ـ اونٹ ـ گائے ـ بکری ـ بھیڑ ـ ہر قسم میں ان کی جتنی نوعیں ہیں سب داخل ہیں نر اور مادہ خصی اور غیر خصی سب کا حکم برابر ہے یعنی سب کی قربانی ہوسکتی ہے بھینس گائے میں شمار ہے اس کی بھی قربانی ہوسکتی ہے۔

  اب رہی بات قربانی کے جانور کی عمر کی قربانی کے جانوروں کی عمریں یہ ہونی چاہئے اونٹ پانچ سال کا ہو اور چھٹے سال میں جارہا ہو اس کو سدیس اور بازل عام کہتے ہیں ـ گائے دو سال کی ہو اور تیسرے میں قدم رکھتی ہو بکری ایک سال کی ہو اور دوسرے سال میں قدم رکھتی ہو اس سے کم عمر ہو تو قربانی جائز نہیں زیادہ ہو جائز ہے بلکہ افضل ہے ہاں دنبہ یا بھیڑ کا بچہ جو چھ ماہ کا ہو اور اتنا فربہ ہو دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے اور بعض کے نزدیک سال کا اکثر گزر گیا ہو یعنی آٹھ ماہ کا ہو یا سات ماہ کا اور صحیح روایت کا مطابق جس پر چھ ماہ گزر گئے ہوں اور ساتویں میں قدم رکھتا ہو مسئلہ مینڈھا بھیڑ سے اور دنبہ دنبی سے افضل ہے جب کہ دونوں کی قیمت ایک ہو اور گوشت برابر ہو بکری بکرے سے افضل ہے لیکن اگر بکرا خصی ہو تو بکری سے افضل ہے اونٹنی اونٹ سے اور گائے بیل سے افضل ہے جبکہ گوشت اور قیمت میں دونوں برابر ہوں مسئلہ قربانی کے جانوروں کو عیب سے خالی ہونا چاہئے اگر ٹھوڑا سا عیب ہو تو قربانی ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی ( صاحب خلاصة الفتاوی نصم زندہ دیسی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پندرہ آفات یعنی عیوب قربانی کے جواز سے مانع نہیں  جس کے دانت نہیں اگر وہ چارہ کھاتا ہے ہو تو ظاہر میں اصول میں اس کی قربانی جائز ہے امام ابو یوسف سے روایت ہے مطلقاً جائز نہیں اور تجربہ میں حضرت امام ابو یوسف سے ہی روایت کہ اگر اتنے دانت باقی رہ گئے ہوں جس سے وہ چارہ کھالے تو جائز ہے اور اجناس میں ہے مطلقاً جائز نہیں اگر بکری کی زبان نہیں تو اس کی قربانی جائز ہے اور اگر گائے کی زبان نہیں تو اس کی قربانی جائز نہیں۔(بحوالہ فتاوی قاضی خان کتاب الاضحیہ جلد اخیرین صفحہ نمبر ۳۲۸ تا ۳۳۶؍خلاصۃ الفتاوی کتاب الاضحیہ جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۵۰۵ تا ۵۱۸)
مذکورہ بالاتصریحات سے ظاہر وباہر ہوگیا کہ بکری یا پھر خصی کیا ہوا بکرا کی عمر سال بھر ہونا ضروری ہے لہذا زید کا کہنا درست ہے اور رہی بات دانت کی اگر وہ چارہ کھاتا ہے ہو تو ظاہر میں اصول میں اس کی قربانی جائز ہے امام ابو یوسف سے روایت ہے مطلقاً جائز نہیں اور تجربہ میں حضرت امام ابو یوسف سے ہی روایت کہ اگر اتنے دانت باقی رہ گئے ہوں جس سے وہ چارہ کھالے تو جائز ہے اور اجناس میں ہے مطلقاً جائز نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد صفی اللہ رضوی خان 

زید کا قول صحیح و درست ھے بکر کہنابالکل غلط ہے شریعت نے ایک سال کی قید لگائی ہے اگر بکرے کی عمر کا ایک سال ہو نایقینی معلوم ہے تو اس کی قربانی جائز ہے چاہے دانت نکلا ہو یا نہ نکلا ہو البتہ دانت ہونے کا ذکر جو ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دانت سال کے بعد ہی نکلتا ہے اگر بکرے کی عمر کا یقینی علم نہ ہو تو دانت کا اعتبار ہو گا کہ اب دیکھے دانت ہے تو خریدے قربانی کرے ورنہ چھوڑدے اس بکرے کی قربانی نہ کرے چونکہ سال کے پورے ہوجانے کا یقینی علم نہیں اگر ہے تو دانت دیکھنے کی ضرورت نہیں بیچنے والا کہے کہ سال کا ہے تو اس پر بھی اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ آج فتنوں کا زمانہ ہے وہ بکرا بیچنے کیلئے جھوٹ کا سہارا لے سکتا ہے اور آج کل اس کا عام رواج ہے حالانکہ شرعا دانت ہونے کا اعتبار نہیں ہے بلکہ سال پورا ہوجانے کا اعتبار ہے جیساکہ ہندیہ میں ہے (وأما سنه) فلايجوز شيء مما ذكرنا من الإبل والبقر والغنم عن الأضحية إلا الثني من كل جنس وإلا الجذع من الضأن خاصةً إذا كان عظيماً، وأما معاني هذه الأسماء فقد ذكر القدوري: أن الفقهاء قالوا: الجذع من الغنم ابن ستة أشهر، والثني ابن سنة۔ والجذع من البقر ابن سنة، والثني منه ابن سنتين. والجذع من الإبل ابن أربع سنين، والثني ابن خمس. وتقدير هذه الأسنان بما قلنا يمنع النقصان، ولايمنع الزيادة، حتى لو ضحى بأقل من ذلك شيئاً لايجوز، ولو ضحى بأكثر من ذلك شيئاً يجوز ويكون أفضل ( الفتاوى الهندية ج۵/ ۲۹۷ کتاب الاضحیۃ) 

مجیب مذکور کا جواب فونی رابطہ کے سبب ہے سوال کے تناظر میں نہیں اسلئے چند سطر لکھا گیا تاکہ سائل مغالطہ کا شکار نہ ہو مجیب مذکور کا جواب سائل کے فونی رابطہ کی بنیاد پر صحیح و درست ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
 محمد مقصود عالم فرحت ضیائی





Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner