AD Banner

{ads}

معین الاشراف فی تخریج معنی تہذیب الاسلا ف

 (معین الاشراف  فی تخریج معنی  تہذیب الاسلا ف)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الحمد للہ الذی ھد انا سواء الطر یق وجعل لناا لتوفق خیر رفیق والصلوٰۃ والسلام علیٰ من ارسلہ ھدی ہو با لاھتد اء حقیق ونور ابہ الا قتد اء یلیق وعلیٰ الہ واصحابہ الذین سعد وا فی منا ھج الصد ق با التصدیق وصعد و افی معا رج الحق با لتحقیق۔ 

تر جمہ : تما م تعر یف اس خدا کے لئے جس نے ہمیں سید ھے راستہ کی ہدایت دی اور تو فیق کو ہمارا بہتر سا تھی بنا یا ۔اور صلوٰۃ وسلام کا نزول ان پر ہو جن کو اللہ تعالیٰ نے ہا دی بنا کر بھیجا ان ہی کی ہدایت یابی زیادہ لا ئق ہے اور جن کو نو ر بنا کر بھیجا ان ہی کی اقتد اء کر نا ہم کو لا ئق ہے ۔ اور انکے ان آل واصحاب پر جو راستی کے تما م راہوں میں تصدیق کے سبب سے نیک بخت ہو ئے اور حق کے تما م سیڑ ھیوں پر تحقیق کے سا تھ طے کئے۔

وبعد فھٰذا غا یۃ تھذیب الکلام فی تحر یر المنطق والکلام و تقریب المرا م من تقر یر عقا ئد الاسلام جعلتہ تبصر ۃ لمن حاول التبصر لدی الا فھام 

وتذکرۃ لمن اراد ان یتذکرمن ذوی الا فھام سیماالولد الاعزالحفی الحری بالاکرام سمی حبیب اللہ علیہ التحیہ والسلام لا زال لہ من التوفیق قوام ومن التأیید عصام وعلی اللہ التوکل وبہ الاعتصام 

ترجمہ:اور حمد وصلوٰۃ کے بعد ،تویہ کتاب نہایت پاکیز ہ کلام ہے ۔علم منطق وکلام کے بیان میں اور مقاصد یعنی عقائد اسلام کی تحقیق کو نہایت نزدیک کرنے والی ہے میں نے اس کتاب کو اس کے لئے تبصرہ بنایا جو غیر سے سمجھنے کے وقت تبصرکا قصد کر ے اور اس کے لئے تذکرہ بنا یا جو تذکر کا ارادہ کرے دراں حالیکہ وہ معلمین سے ہو،خاص کر اس فرزند کے لئے جو زیادہ عزت والا خیر خواہ لائق تعظیم حضور علیہ التحیۃ والثناء کے ہمنام ہے اس فرزند کے لئے توفیق کا قوام اور تائیدالٰہی کا عصام ہمیشہ رہے اور اللہ ہی پر بھروسہ ہے اور اسی کا سہارا تھا منا،

القسم الاول فی المنطق:۔مقدمۃ العلم ان کااذعاناً للنسبۃ فتصدیق ۔والافتصور ویقتسمان بالضرورۃ الضرورۃ والاکتساب بالنظر وھو ملا حظۃ المعقول لتحصیل المجھول وقد یقع فیہ الخطأفا حتیج الیٰ قانون یعصم عنہ فی الکفر وھو المنطق۔

وموضوعہ: المعلوم التصوری والتصدیقی من حیث انہ یوصل الیٰ مطلوب تصوری فیسمی معرفاً اوتصدیقی فیسمی حجۃ ۔

ترجمہ:پہلی قسم علم منطق کے بیان میں۔یہ مقدمۃ العلم ہے اگر نسبۃ حکمیہ کا اذعان ہے تو تصدیق ہے ورنہ تصور ہے اور تصور وتصدیق بداہۃً ضرورت واکتساب بالنظر سے حصہ لیتے ہیں اور نظروہ معلوم شئی کا ملاحظہ کرنا ہے مجہول کو حاصل کرنے کے لئے ۔اور کبھی نظر میں خطاء واقع ہوتی ہے پس ضرورت ہے ایک ایسے قانون کی جو خطاء سے بچائے اور وہ قانون منطق ہے۔

 اور منطق کا موضوع معلوم تصوری وتصدیقی ہے اس حیثیت سے کہ وہ مطلوب تصوری کا موصل ہے اس کا نام معرف رکھا جاتا ہے یا اس حیثیت سے کہ مطلوب تصدیقی کا موصل ہے۔

فصل:۔دلالۃ اللفظ علیٰ تمام ماوضع لہ مطابقۃ وعلیٰ جزئہ تضمن وعلی الخارج التزام ولا بدفیہ من اللزوم عقلا او عرفاوتلزمھما المطابقۃ ولو تقدیر ا ولا عکس ۔

والموضوع ان قصد بجزئہ الدلالۃ علی جزء معنا ہ فمرکب اماتام خبر أ وانشاء وامانا قص تقییدی او غیرہ والافمفرد وھوان استقل فمع الدلالۃ بھیئتہ علی احد الازمنۃ الثلاثۃ کلمۃ وبدونھا اسم والافأداۃ وایضاان اتحدمعناہ فمع تشخصہ وضعاعلم وبدونہ متواط ان تساوت افرادہ ومشکک ان تفاوتت بأولیۃ أوأولویۃ وان کثر فان وضع لکل ابتداء فمشترک والا فان اشتھر فی الثانی فمنقول ینسب الی الناقل والافحقیقۃ ومجاز 

ترجمہ:لفظ کی دلالت تمام ماوضع لہٗ پر ہے تو مطابقت ہے۔اور جزء ماوضع لہٗ پر ہے تو تضمن ہے اور خارج ماوضع لہٗ پر ہے تو التزام ہے۔اور دلالت التزامی میں لزوم عقلی یا عرفی کا ہونا ضروری ہے،اگر چہ تقدیر اًہو۔اس کا برعکس نہیں ۔اور موضوع اگر اس کے جزء سے معنی کے جزء پر دلالت مقصود ہوتو مرکب ہے یا تام خبر یا انشاء اور یاناقص تقییدی ہے یا غیر تقییدی ورنہ مفرد ہے،اور مفرد اگر مستقبل ہے تو اپنی ہئیت کے اعتبار سے تینوں زمانوں میں کسی ایک پر دلالت کے ساتھ ہے۔تو کلمہ اور اگراس کے بغیر ہے تو اسم ۔ورنہ ادات ہے ۔اور نیز مفرد کا معنی اگر متحد ہے تو اپنے تشخص وصفی کے ساتھ ہے تو علم ہے ۔مفرد کا معنی متحد اگر اپنے تشخص وصفی کے بغیر ہے تو متواطی ہے۔اگر ان کے افراد مساوی ہوں ۔اور مشکک ہے اگر اولیت واولیت کا تفاوت ہو اور مفرد کا معنی اگر کثیر ہو تو ہر ایک کے لئے اگر ابتدا ئً وضع ہو تو مشترک ہے۔ورنہ اگر معنی ثانی میں مشہور ہو تو منقول ہے جو ناقل کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ورنہ حقیقت ومجاز ہے۔

فصل:۔المفھوم ان امتنع فرض صدقہ علی کثیر ین فجزئی والا فکلی امتنعت افراد ہ اوامکنت ولم توجد أ ووجد الواحد فقط مع امکان الغیر أو أ متناعہ أوالکثیر مع التناھی أو عدمہ۔

ترجمہ:مفہوم اگر اس کا فرض صدق کثیر ین پر محال ہو تو جزئی ہے ورنہ کلی مفہوم کلی کے افراد خارج میں محال ہوتے ہیں یا ممکن اور کوئی فرد موجود نہیں ہوتا ہے یا صرف ایک فرد موجود ہوتا ہے ۔غیر کے امکان کے ساتھ یا امتناع کے ساتھ یاافراد کثیر تناہی کے ساتھ پائے جاتے ہیں یا عدم تناہی کے ساتھ پائے جاتے ہیں یاعدم تناہی کے ساتھ ۔

فصل :الکلیان ان تفارقا کلیا فمتبائنان والافان تصادقا کلیا من الجانبین فمتساویان ونقیضا ھما کذلک او من جانب واحد فاعم واخص مطلقا ونقیضا ھما بالعکس والا فمن وجہ وبین نقیضیھما تباین جزئی کالمتبائنین وقد یقال الجزئی للا خص من الشئی وھو اعم ۔

تر جمہ :۔ اگر دوکلی ایک دوسرے کلی سے کلی طور پر جداہو ں تو متبا ئنان ہیں ورنہ اگر جا نبین سے ایک دوسر پر کلی طور پر صادق آئیں تو وہ متسا ویا ن ہیں ۔ اور متسا ویان کی نقیصین متسا ویا ن ہیں یا اگر ایک جانب سے دو نو ں کلی طور پر صادق آئیں تو اعم واخص مطلق ہیں اور انکی نقیضین بر عکس ہیںورنہ اعم واخص من وجہ ہیں اور انکی نقیضون کے درمیان تبائین جزئی ہے اس طر ح متبا ئینان کی نقیضون کے درمیان تبا ین جزئی ہے اور جزئی کبھی اخص من الشئی کو کہاجا تا ہے اور وہ اعم ہے ۔

والکلیات خمس:۔ الاول الجنس وھو المقو ل علیٰ کثیر ین مختلفین با لحقا ئق فی جواب ما ھو فان کا ن الجواب عن الما ھیۃ وعن بعض مشا ر کاتھا ھو الجواب عنھا وعن الکل فقریب کا لحیوان والا فبعید کا لجسم النامی الثانی النوع وھو المقول علی کثیر ین متفقین با لحقا ئق فی جواب ما ھو وقد یقال علی الماھیۃ المقو ل علیھا وعلیٰ غیرھا الجنس فی جواب ما ھو ومختص با لا سم الا ضا فی کا الا ول با لحقیقی وبینھما عموم وخصو ص من وجہ لتصا دقھما علی الا نسان وتفا ر قھما فی الحیوان والنقطۃ۔ 

ترجمہ :۔اور کلیات پا نچ ہیں ۔ پہلی کلی جنس ہے اوروہ کثیرین مختلفین با لحقا ئق پر ما ھو کے جواب میں محمول ہو تی ہے۔ پس جوما ہیت اور اسکے بعض مشار کا ت کے جواب میں محمول ہے اگر وہ ماہئیت اور ہر ایک مشارکات کے جواب میں محمول ہے تو جنس قریب ہے جیسے حیوان ورنہ جنس بعید ہے جیسے جسم نامی۔  دوسری کلی نو ع ہے اور وہ کثیر ین متفقین با لحقا ئق پر ما ھو کے جواب میں محمو ل ہو تی ہے اور نوع کبھی اس ما ہیئت کو بھی کہا جا تا ہے جو اس پر اور اسکے غیر پر ما ھو کے جو اب میں محمو ل ہو ۔اور نوع کو اس معنی ثا نی کے اعتبار سے اضا فی کے نام کے ساتھ خاص کیا جا تا ہے جس طر ح معنی اول کے اعتبار سے حقیقی کے ساتھ کے خاص کیا جا تا ہے ۔ اور نوع اضا فی ونوع حقیقی کے در میان عموم وخصوص من وجہ کی نسبت ہے کیونکہ دونوںانسان پر صادق آتے ہیں اور حیوان ونقطہ میں ایک دوسرے سے جدا ہیں ۔یعنی انسان پر صرف نوع اضافی صادق آتی ہے۔نوع حقیقی نہیں ۔اور نقطہ پر صرف نوع حقیقی صادق آتی ہے نوع اضافی نہیں ۔ 

ثم الاجناس قدتترتب متصاعدۃ الی العالی کالجو ھر ویسمی جنس الاجناس والانواع متنازلۃ الی السافل ویسمی نوع الانواع وما بینھمامتوسطات۔الثالث الفصل وھو المقول علی الشیء فی جواب ای شیء ھو فی ذاتہ فان میزہ عن المشارکات فی الجنس القریب فقریب والا فبعید واذ انسب الیٰ مایمیزہ فمقوم والی مایمیزعنہ فمقسم والمقوم للعالی مقوم للسافل ولا عکس والمقسم بالعکس الرابع الخاصۃ وھو خارج المقول علی ماتحت حقیقۃ واحد فقط۔الخامس العرض العام وھوالخارج المقول علیھا وعلیٰ غیر ھا وکل منھما ان امتنع انفکاکہ عن الشیء فلا زم بالنظرالی الماھیۃ او الوجودبین یلزم تصورہ من تصور الملزوم او من تصور ھما الجز م باللزوم غیر بین بخلافہ والافعرض مفارق یدوم أو یزول بسرعۃ أوبطوء

ترجمہ:پھر اجناس عالی جیسے جوہر کی طرف متصاعد ہو کر مترتب ہوتی ہے اور عالی کا نام جنس الاجناس رکھا جاتا ہے اور انواع ،سافل کی طرف متنازل ہو کر مترتب ہوتی ہیں او ر سافل کا نام نوع الانواع رکھا جاتا ہے اور جو عالی وسافل کے درمیان ہیں اس کا نام متوسطات رکھا جاتا ہے۔تیسری کلی فصل ہے۔اوروہ ای شیء ھُوَا فی ذاتہ کے جواب میں شیٔ پر محمول ہوتی ہے پس اگر شیٔ کو جنس قریب کے مشار کات سے امتیاز دے تو فصل قریب ہے ورنہ فصل بعید ہے۔اور جب فصل کی نسبت مایمیزہ یعنی اس شیٔ کی طرف کی جائے جس کو امتیاز کیا جائے تو مقوم ہے اور جب مایمیز عنہ یعنی اس شیٔ کی طرف کی جائے جس سے امتیاز کیا جائے تو مقسم ہے۔اور جو عالی کا مقوم ہے وہ سافل کا مقوم ہے۔اس کا عکس نہیں اور مقسم،مقوم کا برعکس ہے ۔چوتھی کلی کا خاصہ ہے اور وہ خارج ہے جو صرف ایک حقیقت پر محمول ہوتی ہے پانچویں کلی عرض عام ہے۔اور وہ خارج جو ایک اور ایک کے علاوہ حقیقتوں پر محمول ہوتی ہے ۔اور خاصہ وعرض عام میں سے ہر ایک کا اگر شیٔ سے جدا ہونا محال ہو تو وہ لازم بالنظر الی الماہیئت اوالوجود بین ہے اگر اس کاتصور ملزوم کے تصور سے لازم آتا ہو یالازم وملزوم کے تصور سے جز م باللزوم آتا ہو۔غیر بین ہے اگر بین کے برخلاف ہو ورنہ عرض مفارق ہے جو ہمیشہ رہتا ہے یا جلد یادیر سے زائل ہوجاتا ہے ۔

فصل :مفہوم الکلی یسمی کلیامنطقیا و معروضہ طبعیا اوالمجموع عقلیا وکذاالانواع الخمسۃ والحق ان وجود الطبعی بمعنی وجود اشخاصہ۔

ترجمہ:مفہوم کلی کا نام کلی منطقی اور اس کے معروض کا نام کلی طبعی اور مجموعہ کا نام کلی عقلی رکھا جاتا ہے۔اور یہی حال انواع خمسہ کا ہے اور حق یہ ہے کہ وجو د طبعی اپنے وجود اشخاص کے معنی میں ہے۔

فصل:معرف الشیء مایقال علیہ لافادہ تصورہ ویشترط ان یکون مساویالہ واجلی فلا یصح بالاعم والاخص والمساوی معرفۃ وجھالۃ والاخفی ۔والتعریف بالفصل القریب حدوبالخاصۃ رسم فان کان مع القریب فتام والافناقص ولم یعتبروا بالعرض العام وقد اجیزفی الناقص ان یکون اعم کاللفظی وھومایقصد بہ تفسیر مد لول اللفظ

ترجمہ:شیٔ کا معرف وہ ہے جو شیٔ پر اس کے تصور کے افادہ کے لئے محمول ہو اور اس کی شرط یہ ہے کہ معرف کے مساوی اور اجلیٰ ہو لہٰذا تعریف اعم واخص سے صحیح نہ ہوگی اور اس سے بھی نہیں جو معرفت وجہالت میں معرف کے مساوی ہو یونہی اخفی سے بھی ۔اور فصل قریب سے تعریف کرنا حد ہے اور خاصہ سے رسم۔تو اگر تعریف جنس قریب کے ساتھ ہو توتام ہے ورنہ ناقص ہے اور مناطقہ نے عرض عام کا کوئی اعتبار نہیں کیا ہے۔اور تعریف ناقص میں اعم کا نا ہونا جائز قرار دیا گیا ہے۔جیسا کہ تعریف لفظی میں اور تعریف لفظی وہ ہے جس سے لفظ کے مدلول کی تفسیر مقصود ہو۔

فصل فی التصدیقات

القضیۃ قول یحتمل الصدق والکذب فان کان الحکم فیھا بثبوت شیء لشیء او نفیہ عنہ فحملیۃ موجبۃ او سالبۃ ویسمی المحکوم علیہ موضوعاوالمحکوم بہ محمولا والدال علی النسبۃ رابطۃ وقد استعیر لھا ھو والافشرطیۃ ویسمی الجزء الاول مقدما،والثانی تالیا۔والموضوع ان کا ن شخصا معینا سمیت القضیۃ شخصیۃ ومخصوصۃ وان کان نفس الحقیقۃ فطبعیۃ والافان بین کمیہ أفرادہ کلا اوبعضا فمحصورۃ کلیۃ أو جزئیۃ ومابہ البیان سور والافمھملۃ وتلازم الجزئیۃ ولابد من الموجبۃ فی وجو د الموضوع اما محققافھی الخارجیۃ أومقدر افالحقیقیۃ أوذ ھنا فالذھنیۃ وقد یجعل حرف السلب جزئً من جزئٍ فیسمی معدولۃ والا فمحصلۃً۔

ترجمہ:یہ فصل تصدیقات کے بیان میں ہے ۔قضیہ وہ قول ہے جو صدق وکذاب کا احتمال رکھتا ہے تو اگر اس میں ایک شیٔ کے ثبوت کا حکم دوسری شیٔ کے لئے یا ایک شیٔ کی نفی کا حکم 

دوسری شیٔ سے ہے تو قضیہ حملیہ ہے(خواہ) موجبہ ہو یا سالبہ اور محکوم علیہ کا نام موضوع اور محکوم بہ کا نام محمول رکھا جاتا ہے۔اور نسبت پر دلا لت کا نا م رابطہ رکھا گیا ہے اور رابطہ پر دلالت کرنے کے لئے لفظ ھو کو مستعارکر لیا گیاہے ۔ورنہ شرطیہ ہے اور اس کے جزاول کانام مقدم رکھا جاتا ہے اور جزء ثانی کا تالی۔اور موضوع اگر شخص معین ہے ۔تو قضیہ کا نام شخصیہ ومخصوصہ رکھا جائے گا اوراگر نفس حقیقت ہے تو طبعیہ رکھا جائے گا ورنہ اگر اس کے کل یابعض افراد کی مقدار بیان کی گئی ہے تو قضیہ کا نام محصور ہ کلیہ یا جزئیہ رکھا جائے گا اور وہ جس سے کلیت یا جزئیت کا بیان ہو سور ہے،ورنہ مہملہ رکھا جائیگا اور قضیہ مہملہ محصورہ کو لازم ہوتا ہے ۔قضیہ حملیہ موجبہ میں وجود موضوع کا ہونا ضروری ہے ۔آیا محققاً ہو (لہٰذا) اگر محققاً ہے تو قضیہ خارجیہ ہے، یا مقدار اً ہو (لہٰذا اگر مقداراً ہے) تو قضیہ حقیقیہ ہے۔یا ذھناً ہو ( لہٰذا اگر ذہناً ہے) تو قضیہ ذھنیہ ہے۔اور کبھی حرف سلب کو قضیہ حملیہ کے موضوع یا محمول یا دونوں کا جزء بنا یا جاتا ہے ۔لہٰذا اس قضیہ کا نام معدولہ رکھا جاتا ہے۔ورنہ اس کا نام محصلہ رکھا جاتا ہے۔

وقد یصرح بکیفیۃ النسبۃ فموجھۃ ومابہ البیان جھۃ والا فمطلقۃ فان کان الحکم فیھا بضرورۃ النسبۃ مادام ذات الموضوع موجودۃ فضروریۃ مطلقۃ أ ومادام وصفہ فمشروطۃ عامۃ أوفی وقت معین فوقتیۃ مطلقۃ أوغیرمعین فمنتشرۃ مطلقۃ أوبدوامھا مادام الذات فدائمۃ مطلقۃ اومادام الوصف فعرفیۃ عامۃ أوبفعلیتھا فمطلقۃ عامۃ اوبعد م ضرورۃ خلا فھا فممکنۃ عامۃ فھذ ہ بسائط وقد تقیید العامتان والوقتیتان المطلقتان باللادوام الذاتی فتسمی المشروطۃ الخاصۃ والعرفیۃ الخاصۃ والوقتیۃ والمنتشرۃ وقد تقیید المطلقۃ العامۃ باللاضرورۃ الذاتیۃ فتسمی الوجود یۃ اللاضروریۃ أو باللادوام الذاتی فتسمی الوجود یۃ اللا دائمۃ وقد تقیید الممکنۃ العامۃ باللاضروریۃ من الجانب الموافق ایضا فتسمی الممکنۃ الخاصۃ وھذہ مرکبات لأن اللادوام اشارۃ الیٰ مطلقۃ عامۃ واللاضرورۃ الیٰ ممکنۃ عامۃ مخالفتی الکیفیۃ وموافقتی الکمیہ لما قید بھما۔

ترجمہ:اور کبھی قضیہ میں نسبت کی کیفیت صراحۃً بیان کی جاتی ہے پس وہ قضیہ موجہہ ہے اور وہ لفظ جس سے کیفیت بیان کی جائے جہت ہے ورنہ مطلقہ ہے۔پس اگر قضیہ میں ضرورت نسبت کاحکم ہے جب تک ذات موضوع موجود رہے ۔تو ضروریہ مطلقہ ہے یا جب تک ذات موضوع وصف عنوانی کے ساتھ موصوف رہے تو مشروطہ عامہ ہے۔یاضرورت نسبت کا حکم وقت معین میں ہے تو وقتیہ مطلقہ ہے یا وقت غیر معین میں تو منتشرہ مطلقہ ہے یا قضیہ میں دوام نسبت کا حکم ہو جب تک ذات موضوع موجود رہے تو دائمہ مطلقہ ہے یا قضیہ میں دوام نسبت کا حکم ہو جب تک ذات موضوع وصف عنوانی کے ساتھ موصوف رہے تو عرفیہ عامہ ہے۔ 

یاقضیہ میںفعلیت نسبت کا حکم ہو تو مطلقہ عامہ ہے ۔یاقضیہ میں نسبت کے خلاف سلب ضرورت کا حکم ہو تو ممکنہ عامہ ہے لہٰذا یہ (جو مذکور ہوئے کل) بسائط ہیں ۔اور کبھی مشروطہ عامہ وعرفیہ عامہ اور وقتیہ مطلقہ ومنتشرہ مطلقہ کو لادوام ذاتی کے ساتھ مقید کیا جاتا ہے لہٰذا ان کا نام مشروطہ خاصہ اور عرفیہ خاصہ اور وقتیہ اور منتشرہ رکھا جاتا ہے ۔اور کبھی مطلقہ عامہ کو لاضرورت ذاتیہ کے ساتھ مقید کیا جاتا ہے پس اس قضیہ کانام وجودیہ لاضروریہ رکھا جاتا ہے یا کبھی مطلقہ عامہ کو لادوام ذاتی کے ساتھ مقید کیا جاتا ہے تو اس کا نام وجود یہ لادائمہ رکھا جاتا ہے۔اور کبھی ممکنہ عامہ کو جانب موافق سے بھی لاضرورت کے ساتھ مقید کیا جاتا ہے ۔پس اس کا نام ممکنہ خاصہ رکھا جاتا ہے۔اور یہ جو مذکور ہوئے کل مرکبات ہیں اس لئے کہ لادوام سے مطلقہ عامہ کی طرف اشارہ ہے اور لاضرورت سے ممکنہ عامہ کی طرف دراں حالیکہ کیفیت میں اس کے مخالف اور کمیت میں اس کے موافق ہوں جس کو ان دونوں سے مقید کیا گیا ہے۔

فصل:الشرطیۃ متصلۃ ان حکم فیھا بثبوت نسبۃ علی تقدیر اخریٰ أونفیھا لزومیۃ ان کان ذلک بعلا قۃ والافاتفا قیۃ ومنفصلۃ ان حکم فیھا بتنا فی النسبتین أو لا تنا فیھما صدقا وکذبا معا وھی الحقیقیۃ أ و صدقا فقط فما نعۃ الجمع أوکذبا فقط فما نعۃ الخلو۔وکل منھما عنادیۃ ان کا التنا فی  لذاتی الجزئین والا فاتفاقیۃ ۔ثم الحکم فی الشرطیۃ ان کان 

علی جمیع تقادیر المقدم فکلیۃ أوبعضھا مطلقا فجزئیۃ أو معینا فشخصیۃ وألا فمھملۃ وطرفا الشرطیۃ فی الاصل قضیتان حملیتان أومتصلتان أو منفصلتان أومختلفتان الا انھما خرجتا بزیادۃ أداۃ الاتصال والانفصال عن التمام۔

ترجمہ:شرطیہ متصلہ ہے اگر اس میں ایک نسبت کے ثبوت یا نفی کا حکم دوسری نسبت کی تقدیر پر ہے متصلہ لزومیہ ہے۔اگر وہ علاقہ کے ساتھ ہے ورنہ اتفاقیہ ہے۔اور شرطیہ منفصلہ ہے اگر اس میں دونوں نسبت کے تنا فی یا لا تنا فی کا حکم ہو اگر صد ق وکذـب دونوںہو تو وہ حقیقیہ ہے۔ یاتنافی وعدم تنافی صرف صدق میں ہو تو مانعۃ الجمع ہے یا صرف کذب میں ہو تو مانعۃ الخلو ہے۔اور ان دونوں میں سے ہر ایک عنادیہ ہے۔اگر تنافی دونوں جزء کی ذات میں ہو ۔ورنہ اتفاقیہ ہے۔پھر قضیہ شرطیہ میں حکم اگر مقدم کی جمع تقادیرپر ہے تو کلیہ ہے یا مطلق بعض تقادیر پر ہے تو جزئیہ ہے یا بعض معین تقدیر پر ہے تو شخصیہ ہے ورنہ مہملہ ہے۔اور قضیہ شرطیہ کے دونوں طرف اصل میں دوقضیے حملیے ہیں ۔یادوشرطیہ متصلہ ہیں۔یا دو منفصلہ یا دومختلف قضیے ہیں ۔مگر دونوں ادات اتصال وانفصال کے زیادہ ہونے سے قضیہ تمام ہونے سے خارج ہو جاتے ہیں۔

فصل :التنا قض اختلاف القضیتین بحیث یلزم لذاتہ من صدق کل کذب الأخریٰ وبالعکس ولا بدمن الاختلاف فی الکم والکیف والجھۃ والا تحاد فیما عداھا۔

فالنقیض للضروریۃ الممکنۃ العامۃ وللدائمۃ المطلقۃ العامۃ وللمشروطۃ العامۃ الحینیۃ الممکنۃ وللعرفیۃ العامۃ الحینیۃ المطلقۃ وللمرکبۃ المفھوم المرددبین نقیضی الجزئین ولکن فی الجزئیۃ بالنسبۃ الیٰ کل فرد۔

ترجمہ:تناقض دوقضیوں کا اس حیثیت سے مختلف ہو نا ے کہ ہر ایک کے صدق سے دوسرے کا کذب لذاتہ لازم آئے یا برعکس یعنی ہر ایک کے کذب سے دوسرے کا صدق لذاتہ لازم آئے اور کم کیف وجہت میں اختلاف اور ان کے علاوہ میں اتحاد ضروری ہے ۔لہٰذا ضروریہ مطلقہ کی نقیض ممکنہ عامہ ہے۔اور دائمہ مطلقہ کی نقیض حینیہ مطلقہ ہے۔اور مشروطہ عامہ کی نقیض حینیہ ممکنہ ہے۔اور عرفیہ عامہ کی نقیض ملطقہ عامہ ہے۔اور موجہہ مرکبہ کی نقیض وہ مفہوم ہے جو دوجزئوں کی نقیضوں کے درمیان مرددہے۔اور لیکن مرکبہ جزئیہ میں ۔نقیض ہر ہر فرد کی طرف نسبت کرکے ہے۔

فصل:العکس المستوی تبدیل وطرفی القضیۃ مع بقاء الصدق والکیف والموجبۃ انما تنعکس جزئیۃ لجوازعموم المحمول أو التالی والسالبۃ الکیۃ تنعکس سالبۃ کلیۃ والالزم سلب الشئی عن نفسہ والجزئیۃ لاتنعکس اصلاً لجواز عموم الموضوع أو المقدم وأما بحسب الجھۃ فمن الموجبات تنعکس الدائمتان والعامتان حینیۃ مطلقۃ ۔والخاصتان حینیۃ لادائمۃ ۔ والوقتیتان والوجودیتان ، والمطلقۃ العامۃ مطلقۃ عامۃ ولا عکس للممکنتین ومن السوالب تنعکس الدائمتان دائمۃ مطلقۃ والعامتان عرفیۃ عامۃ والخاصتان عرفیۃ لادائمۃ فی البعض ۔ والبیان فی الکل أن نقیض العکس مع الأ صل ینتج المحال ولا عکس للبواقی بالنقض۔

ترجمہ:عکس مستوی قضیہ کے دونوں طرف کو بدل دینا ہے۔صدق و کیف کی بقاء کے ساتھ ،اور موجبہ کلیہ وجزئیہ کا عکس صرف موجبہ جزئیہ ہو تا ہے کیونکہ جائز ہے قضیہ حملیہ میں اور قضیہ شرطیہ میں تالی عام ہو ۔اور سالبہ کلیہ کا عکس سالبہ کلیہ ہوگا۔ ورنہ سلب الشئی عن نفسہ لازم آئے گا اور سالبہ جزئیہ کا عکس قطعاً نہیں ہوگا اس لئے کہ جائز ہے قضیہ حملیہ میں موضوع یا قضیہ شرطیہ میں مقدم عام ہے لیکن جہت کے اعتبار سے موجبات میں سے ضروریہ مطلقہ ودائمہ مطلقہ اور مشرطہ عامہ وعرفیہ عامہ کا عکس حینیہ مطلقہ ہوتا ہے۔ اور مشروطہ خاصہ وعرفیہ خاصہ کا عکس حینیہ لادائمہ ہوگا ۔اور وقتیہ ومنتشرہ اور وجود یہ لادائمہ ووجودیہ لاضروریہ اور مطلقہ عامہ کا عکس مطلقہ عامہ ہوتا ہے اور ممکنہ عامہ وممکنہ خاصہ کا عکس نہیں ہوتا اور سوالب میں سے ضروریہ مطلقہ ودائمہ مطلقہ کا عکس دائمہ مطلقہ ہوتا ہے۔اور مشروطہ خاصہ وعرفیہ خاصہ کا عکس عرفیہ لادائمہ فی البعض آتا ہے۔اور ہر ایک کی دلیل یہ ہے کہ عکس کی نقیض کو اصل قضیہ کے ساتھ ملاکر نتیجہ محال دے گا اور باقی موجہات سالبہ کا عکس دلیل نقض سے نہیں ہوتا ۔

فصل: عکس النقیض تبدیل نقیضی الطرفین مع بقاء الصدق والکیف أوجعل نقیض الثانی أو لا مع مخالفۃ الکیف ۔وحکم الموجبات ھھناحکم السوالب فی المستوی ،وبالعکس البیان البیان ۔والنقض النقض وقد بین انعکاس الخاصتین من الموجبۃ الجزئیۃ ھھنا ومن السالبۃ الجزئیۃ ثمہ الی العرفیۃ الخاصۃ بالافتراض فتامل۔

ترجمہ:عکس نقیض طرفین کی دونوں نقیضوں کو بدل دینا ہے۔صد ق وکیف کی بقاء کے ساتھ یا نقیض جزء ثانی کو کیف کی مخالفت کے ساتھ جز ء اول کر دینا ہے۔ عکس مستوی میں جو سوالب کا حکم ہے وہی یہاں موجبات کا حکم ہے اور برعکس یعنی عکس مستوی میں جو حکم موجبات کاہے وہی حکم یہاں سوالب کا ہے۔اور جو دلیل وہاں ہے وہی دلیل یہاں ہے اور جو دلیل نقیض وہاں ہے وہی دلیل نقیض یہاں ہے۔اور یہاں مشروطہ وعرفیہ خاصہ کے موجبہ جزئیہ اور وہاں سالبہ جزئیہ کا عکس عرفیہ خاصہ ہو نا دلیل افتراض سے بیان کیا گیا ہے۔تو آپ غور کیجئے ۔

فصل:القیاس قول مؤلف من قضایا یلزم لذاتہ قول آخرفان کان مذکورافیہ بمادتہ وھیئتہ فاستثنائی والافاقترانی حملی أو شرطی وموضوع المطلوب من الحملی یسمی أصغر ومحمولہ اکبر والمتکر ر أوسط ،ومافیہ الأصغر صغری والأکبر کبریٰ والأوسط اما محمول الصغریٰ وموضوع الکبریٰ فھوالشکل الاول أومحمو لھما فالثانی أوموضو عھما فالثالث أوعکس الأول فالرابع۔

ترجمہ : قیاس ایسا قول ہے جو چند قضیوں سے مرکب ہو جس سے دوسرا قول لذاتہ لازم آتا ہے پس اگر دوسرا قول قیاس میں اپنے مادہ وہیئت کے ساتھ مذکور ہے تو قیاس استثنائی ہے ورنہ اقترانی ہے اقترانی آیا حملی ہے یا شرطی اور اقترانی حملی کے مطلوب کے موضوع کا نام اصغر اور محمول کا نام اکبر رکھا جاتا ے ۔اور جوقیاس میں باربار آئے اس کا نام حد اوسط رکھا جاتاہے ۔اور جس قضیہ میں اصغر ہو اس کا نام صغریٰ او جس میں اکبر ہو اس کا نام کبریٰ رکھا جاتاہے ۔اور حد اوسط آیا صغریٰ کا محمول اور کبر یٰ کا موضوع ہے تو وہ قیاس شکل اول ہے ۔یا دونوں کا محمول ہے تو شکل ثانی ہے ۔یا دونوں کا موضوع ہے تو شکل ثالث ہے۔یا پہلی شکل کا برعکس ہے تو شکل رابع ہے۔

ویشتر ط فی الاول: ایجاب الصغریٰ وفعلیتھا مع کلیۃ الکبریٰ لینتج الموجبتان مع الموجبۃ الکلیۃ الموحبتین ومع السالبۃ الکیۃ السالبتین با لضرورۃ وفیالثانی اختلافھمافی الکیف وکلیۃ الکبریٰ مع دوام الصغریٰ أوانعکاس سالبۃ الکبریٰ وکون الممکنۃ مع الضروریۃ أو الکبریٰ المشروطۃ لینتج الکلیتان سالبۃ کلیۃ والمختلفتان فی الکم أیضا سالبۃ جزئیۃ بالخلف أوعکس الکبریٰ أو الصغریٰ ثم الترتیب ثم النتیجۃ وفی الثالث ایجاب الصغریٰ وفعلیتھا مع کلیۃ احدا ھما لینتج الموجبتان مع الموجبۃ الکیۃ أوبالعکس موجبۃ جزئیۃ ومع السالبۃ الکیۃ أو الکیۃ مع الجزئیۃ سالبۃ جزئیۃ بالخلف ،أوعکس الصغریٰ أوالکبریٰ ثم الترتیب ثم النتیجۃ وفی الرابع ایجابھما مع کلیۃ الصغریٰ أو اختلافھما مع کلیۃ احداھما لینتج الموجبۃ الکلیۃ مع الاربع والجزئیۃ مع السالبۃ الکلیۃ والسالبتان مع الموجبۃ الکلیۃ وکلیتھا مع الموجبۃ الجزئیۃ جزئیۃ موجبۃ ان لم یکن بسلب والافسالبۃ بالخلف ۔أو بعکس الترتیب ثم النتیجۃ أوبعکس المقدمتین أو بالرد الی الثانی بعکس الصغریٰ أو الثالث بعکس الکبریٰ ۔

ترجمہ:اور شکل او ل میں ایجاب صغریٰ اور فعلیت صغریٰ کلیت کبریٰ کے ساتھ شرط لگائی جاتی ہے۔یہ شرط اس لئے لگائی جاتی ہے تاکہ موجبہ کلیہ وجزئیہ ،موجبہ کلیہ کے ساتھ ملک نتیجہ بداھۃموجبہ کلیہ وجزئیہ دیںاور سالبہ کلیہ کے ساتھ ملکرنتیجہ بداہۃً سالبہ کلیہ وجزئیہ دیں اور شکل ثانی میں اختلاف مقد متین فی الکیف اور کلیہ کبریٰ کی قید لگائی جاتی ہے ۔دوام صغریٰ کے 

ساتھ یا کبریٰ کے سالبہ کے عکس ہونے اور ممکنہ مع ضروریہ یا مع کبریٰ مشروطہ ہونے کے ساتھ یہ شرط اس لئے لگائی جاتی ہے تاکہ موجبہ کلیہ وسالبہ کلیہ نتیجہ سالبہ کلیہ دے اور مختلفتان فی الکم بھی نتیجہ سالبہ جزئیہ دے دلیل خلف سے یا عکس کبریٰ سے یا عکس صغری سے پھر عکس ترتیب پھر عکس نتیجہ سے ۔شکل ثالث میں ایجاب صغریٰ اور فعلیت صغریٰ مع کلیہ احدی المقدمتین کی شرط لگائی جاتی ہے ۔شرط مذکوراس لئے لگائی جاتی ہے تاکہ موجبہ کلیہ وجزئیہ ۔موجبہ کلیہ یا عکس کے ساتھ نتیجہ موجبہ جزئیہ دے اور سالبہ کلیہ یا کلیہ مع الجزئیہ کے ساتھ نتیجہ سالبہ جزئیہ دے مذکورہ بالا ضربوں کا انتاج دلیل خلف یا عکس صغریٰ سے ثابت ہے ۔یا عکس کبریٰ پھر عکس ترتیب پھر عکس نتیجہ سے اور شکل رابع میں کلیہ صغریٰ سے ساتھ ایجاب مقدمتین کی شرط لگائی جاتی ہے یا کلیہ احد ی المقدمتین کے ساتھ اختلا ف مقد متین کی شر ط لگا ئی جا تی ہے تاکہ صغریٰ کے موجبہ کلیہ کبریٰ کے چاروں محصور ات کے ساتھ اور صغریٰ کے موجبہ جزئیہ کبریٰ کے سالبہ کلیہ کے ساتھ اور صغریٰ کے سالبہ کلیہ وجزئیہ کبریٰ کے موجبہ کلیہ کے ساتھ اور صغریٰ کے سالبہ کلیہ کبریٰ کے موجبہ جزئیہ کے ساتھ مل کر نتیجہ موجبہ جزئیہ دے اگر سلب نہ ہو ورنہ سالبہ جزئیہ دے مذکورہ بالا ضربوں کے انتاج دلیل خلف سے ثابت ہیں یا عکس ترتیب پھر عکس نتیجہ یا عکس مقدمتین سے ثابت ہیں یا عکس صغریٰ سے شکل ثانی کی طرف رد کرکے یا عکس کبریٰ سے شکل ثالث کی طرف رد کرکے ثابت ہیں ۔

وضابطۃ: شرائط الاربعۃ انہ لا بدلھا امامن عموم موضوعیۃ الاوسط مع ملاقاتہ للاصغر بالفعل او حملہ علی الاکبروامامن عموم موضوعیۃ الاکبر مع الاختلاف فی الکیف مع منافاۃ نسبۃ وصف الاوسط الی وصف الاکبر لنسبتہ الی ذات الاصغر

ترجمہ:اشکال اربعہ کی شرائط کا ضابطہ یہ ہے کہ ان کے لئے آیا حداوسط کی موضوعیت کا عام ہونا ضروری ہے۔حد اوسط کی اصغر سے ملاقات بالفعل کے ساتھ یا حد اوسط کے اکبر پر حمل کے ساتھ اور یا اکبر کی موضوعیت کا عام ہونا اختلاف فی الکیف کے ساتھ ضروری ہے وصف اوسط کی نسبت جو وصف اکبر کی طرف ہے اس کی نسبت کی منافاۃ کے ساتھ ہو ۔جو وصف اوسط کی ذات اصغر کی طرف ہے۔

فصل: الشرطی من الاقترانی اما ان یترکب من متصلتین أو منفصلتین ،أوحملیۃ ومتصلۃ ،أو حملیۃ ومنفصلۃ أومتصلۃ ومنفصلۃ ،وینعقد فیہ الا شکال الا ربعۃ وفی تفصیلھا طول۔

ترجمہ :۔ شر طیہ جو کہ ازقسم اقتر انی ہے آیا د ومتصلہ سے مر کب ہے یا د و منفصلہ سے یا ایک حملیہ اور ایک متصلہ سے یا ایک حملیہ اور ایک منفصلہ سے یا ایک متصلہ اور ایک منفصلہ سے اور قیاس شر طی میں بھی اشکال اربعہ منعقد ہو تی ہے لیکن انکی تفصیل میں طو ل ہے ۔

فصل : الا ستشنا ئی ینتج من المتصلۃ وضع المقد م ورفع التا لی ومن الحقیقۃ وضع کل کما نعۃ الجمع ورفعہ کما نعۃ الخلو وقد یختص باسم قیا س الخلف وھو ما یقصد بہ اثبا ت المطلوب بابطال نقیضہ ومر جع الیٰ استثنا ئی واقتر انی ۔

تر جمہ :۔قیا س استثنائی شر طیہ متصلہ سے (اگر مر کب ہے تو ) نتیجہ وضع مقدم ورفع تا لی دیتا ہے اور منفصلہ حقیقیہ سے (اگر مر کب ہے تو ) نتیجہ وضع کل دیتا ہے جیسے ما نعۃ الجمع ورفع کل دیتا ہے جیسے مانعۃ الخلو ‘‘ کبھی قیا س کو قیا س خلف کے نام کے سا تھ خاص کیا جاتا ہے اور قیا س خلف وہ ہے جس سے مقصود مطلوب کا اثبات اس کی نقیض کو با طل کر کے ہو تا ہے ۔اور قیا س خلف کا مر جع استثنا ئی واقتر انی کی طر ف ہے ۔

فصل: الا ستقر اء تصفح الجز ئیا ت لاثبات حکم کلی والتمثیل بیان مشا رکۃ جزئی لا خر فی علۃ الحکم لیثبت فیہ ۔ والعمدۃ فی طریقہ الدور ان والتر دید ۔

تر جمہ : استقرا ء جزئیا ت کا تتبع کر نا ہے حکم کلی کو ثا بت کرنے کیلئے تمثیل کہتے ہیں ایک جزئی کی مشا رکت کو دوسری جزئی کے سا تھ علت حکمم میں بیان کرنے کو تاکہ حکم اس جزئی اول میں ثا بت ہو اور طر یقہ تمثیل میں عمد ہ دور ان وتردید ہیں ۔ 

فصل: القیا س اما بر ھا نی یتا ٔلف من الیقینیا ت وأصولھا الأ ولیات ، والمشاھدات ، والتجر بیات والحد سیا ت ، والمتوا ترات ، والفطر یات ، ثم ان کا ن الأوسط مع علیتہ للنسبۃ فی الذھن علۃ لھا فی الو اقع فلمی ، والا فانی ، واما جدلی یتا لف من المشھودات والمسلمات وأما خطا بی یتالف من المقبو لات والمظنونات واما شعری یتالف من المخیلا ت ، واما سفسطی یتالف من الو ہمیات ، والمشبھات 

تر جمہ : قیا س آیا بر ہانی ہے برہا نی یقینیات سے مر کب ہوتا ہے اور یقینیات کے اصو ل اولیات ومشا ہدات وتجریبات وحد سیا ت ومتواترات و فطریات ہیں ،پھر اگر حد اوسط ذہن میں نسبت کی علت ہو نے کے ساتھ واقع میں (بھی) نسبت کی علت ہے تو لمی ہے ۔ور نہ انی ہے ۔اور یا جدلی ہے جو مشہورات ومسلمات سے مر کب ہو تا ہے ۔اور یا خطا بی جو مقبولات ومظنو نا ت سے مر کب ہو تا ہے اور یا شعر ی ہے جو مخیلات سے مر کب ہوتا ہے اور یا سفسطی ہے جوو ہمیات اور مشبہات سے مر کب ہو تا ہے۔

خا تمۃ :أجزا ء العلوم ثلثۃ (۱) المو ضو عا ت وھی التی یبحث فی العلم عن أعر اضھا الذاتیۃ (۲) والمبادی وھی حد ود الموضو عا ت وأجزائھا واعرا ضھا ، ومقدمات بینۃ أوما خوذۃ یبتنی علیھا قیا سات۔

العلم(۳)المسائل وھی قضایا تطلب فی العلم ۔وموضوعاتھا اما موضو ع العلم بعینہ أو نو ع منہ ۔أو عرض ذاتی لہ أومر کب ۔ ومحمولا تھا أمور خارجۃ عنھا ، لاحقۃ لھا لذواتھا ۔ وقد یقال المبادی لما یبد ا بہ قبل المقصود والمقدمات لما یتوقف علیھا الشروع بو جہ البصیرۃ ، وفر ط الر غبۃ کتعریف العلم ، وبیان غا یتہ،وموضوعہ۔

تر جمہ : اجز اء علوم تین ہیں (۱) پہلا جزء موضوعات ہیں اور مو ضوعات وہ ہیں جن کے عوارض ذاتیہ سے علم میں بحث کی جا تی ہے اور (۲) دوسرے جزء مبادی ہیں اور وہ موضوعات اور انکے اجزاء اور اعراض کے حدود ہیں اور مقدمات ہیں آیا وہ بینہ ہو ںیاوہ جن پر علم کے قیاسوں کی بنیاد رکھی جا تی ہے (۳) تیسرے جزء مسائل ہیں اور مسائل وہ قضایا ہیں جو علم میں طلب کئے جا تے ہیں اور انکے موضوعات آیا بعینہ موضوع علم ہیں ۔یا اسکی نو ع یا اسکے عر ض ذاتی کی نوع یا ان سے مر کب ہیں اور انکے محمولات وہ امو ر ہیں جو مو ضوعات سے خارج اور انکو لذاتہا لا حق ہیں اور مبادی کبھی اسکو بھی کہا جا تاہے جسکے ذریعے مقصود سے پہلے ابتداء کی جائے اور مقدمات کبھی اسکو بھی کہاجاتا ہے جس پر شروع علیٰ وجہ بصیرت اور فرط رغبت موقوف ہو جیسے علم کی تعر یف اور اسکی غا یت ومو ضو ع کا بیان 

وکان القدما ء:یذکرون فی صد ر الکتاب ما یسمونہ الرؤوس الثمانیۃ الا ول الغر ض لئلا یکون طلبہ عبثا الثانی المنفعۃ أی ما یتشوق الکل طبعا لینبسط فی الطلب ویحتمل المشقۃوالثالث التسمیۃوھی عنوان العلم لیکون عندہ اجما ل ما یفصلہ والر ابع المؤلف لیسکن قلب المتعلم والخامس أنہ من أی علم ھو لیطلب فیہ ما یلیق بہ والساد س أنہ فی أی مر تبۃ ھو لیقد م علیٰ ما یجب ویؤخر عما یجب والسابع القسمۃ والتبویب لیطلب فی کل باب ما یلیق بہ والثامن الأ نحا ء التعلیمیۃ وھیالتقسیم أعنی التکثیر من فوق والتحلیل عکسہ والتحد ید أی فعل الحد والبرھان أی الطر یق الی الوقوف علی الحق والعمل بہ ۔وھذا با لمقا صد أشبہ۔

تر جمہ : اور حکما ء متقدمین کتاب کے شروع میں ان امو ر کو بیان کر تے ہیں جنکا نا م وہ لوگ رؤس ثما نیہ رکھتے ہیں پہلا راس غر ض ہے تا کہ علم کی طلب عبث نہ ہو ،دوسراراس منفعت سے ہے یعنی وہ ہے جس کی طرف ہر ایک طبعی طور پر مائل ہوتاہے ،تاکہ شئی کے حاصل کرنے میں خوشی حاصل ہو،اور وہ مشقت جو حاصل کرنے میں ہوتی ہے برداشت کرے،تیسرا راس تسمیہ ہے اور وہ علم کا نام ہے تاکہ اس کے پڑھنے والے کے پاس اس کا اجمال رہے ،جن کی تفصیل کی جانے والی ہے، اور چوتھا راس مؤلف ہے اس کو کتاب کے شروع میں اس لئے بیان کیا جاتا ہے تاکہ متعلم کے دل کو اطمنان وسکون حاصل ہو ۔ پانچواں راس یہ ہے کہ وہ علم 

،علم کی کس جنس میں داخل ہے۔(شروع میں اس کو اس لئے بیان کیا جاتا ہے)تاکہ اس علم میں وہ چیز تلاش کی جائے جو اس کے مناسب ہے۔

اور چھٹا  راس یہ ہے کہ وہ علم کس مرتبہ میں ہے (شروع میں اس کو اس لئے بیان کیا جاتا ہے) تاکہ اس کو مایجب پر مقدم اور راس سے موخر کیا جائے ۔ ساتواں راس قسمت وتبویب ہے ۔یعنی شروع میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ کتاب کی کس طرح تقسیم کی گئی ہے۔اس میں کتنے باب ہیں۔(اس کو پہلے اس لئے بیان کیا جاتا ہے )تاکہ ہرباب میں وہ چیز تلاش کی جائے جو اس کے مناسب ہے۔ اور آٹھواں راس انحاء تعلیمیہ ہیں ۔اور وہ ایک تقسیم ہے یعنی اوپر سے نیچے کی طرف بڑھا نا اور دوسرا تحلیل ہے اوروہ تقسیم کا برعکس ہے۔اور تیسرا طریقہ تحدید ہے۔یعنی اشیاء کی حدود کی تعریف کرنا اور چوتھا طریقہ برہان ہے یعنی حق پر واقفیت اوراس پر عمل کرنے کا طریقہ اور یہ مقاصد سے زیادہ مشابہ ہے۔

ھذا ماتیسر لھذا لعبد الضعیف محمد معین الدین خان الحنفی القادری الرضوی الھیم فوری غفرلہ ربہ القوی واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم واسال اللہ تعالیٰ ان یصلی علی نبیہ محمد والہ واصحابہ وان یمیتنا علی الایمان ویرحم فاقتی ھذہ الترجمۃ وینفع بھا عبادہ المومنین ویغفرلی مافرط منی فیھا وفی غیرھا انہ علی کل شیء قدیر وصلی اللہ علیٰ سید نا محمد واٰلہ وصحبہ وسلم ۔آمین۔بجاہ حبیبہ سید المرسلین علیہ افضل الصلٰوۃ واکمل التسلیم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۲۵؍شوال المکرم ۱۴۳۳ھ؁

محمد معین الدین قادری رضوی ہیم پوری




مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads