AD Banner

(تعظیم اور عبادت میں فرق)

 (تعظیم اور عبادت میں فرق)

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین کہ تعظیم اور عبادت میں کیا فرق ہے؟ کیا سبب ہے کہ اولیاء کرام کی قبروں پر چادریں‘ پھول‘ مٹھائیاں چڑھانے والے مؤحد مسلمان اور بتوں پر پھول پتیاں چڑھانے والے کافر و مشرک بے ایمان۔

المستفتی

منور حسین انصاری مراد آبادی

۱۵؍ رجب المرجب ۱۳۵۵؁ھ

الجواب بعون الملک الوھاب

عبادت غایت خضوع اور انتہائی تذلل کو کہتے ہیں اور یہ حاصل نہیں ہوتا‘ جب تک عابد معبود کی نسبت الوہیت کا اعتقاد نہ رکھتا ہو اور اس کو قادر مطلق متصرف بالذات وبالاستقلال نہ جانتا ہو اور اس کے حضور بغیر اضطرار کے اپنے اختیار سے انتہائی تذلل جس کو اظہار عبدیت کہتے ہیں بجا نہ لائے۔

تعظیم اس سے عام ہے اس میں غایت تذلل اور غایت خضوع اور معظم کی الوہیت اور اس کی قدرت ذاتیہ و مستقلہ کا اعتقاد ضروری نہیں ہے۔ ان دونوں میں عموم و خصوص کی نسبت ہے۔ ہر عبادت تعظیم ہے اور تعظیم عبادت نہیں۔ ورنہ ماں‘ باپ‘ استاد‘ پیر‘ نبی رسول‘ قرآن شریف‘ مسجد‘ کعبہ معظمہ سب کی تعظیم شرعاً مطلوب ہے اور مسلمانوں کو ان کی تعظیم و توقیر کا حکم دیا گیا ہے۔ ہر تعظیم اگر عبادت ہو جایا کرے تو یہ سب تعظیمیں شرک ہوں‘ اور ان کا حکم کرنا شرک کا حکم کرناہو۔ جو شخص شریعت پر ایسا الزام لگائے گمراہ بے دین ہے۔ ایک ہی طرح کے افعال جن میں صورتاً کوئی فرق ظاہر نہ ہو۔ بسا اوقات حقیقت میں ہوتے ہیں مشرکین سے زیادہ کا بعد و دوری ہوتی ہے۔ غیر خدا کی عبادت یقینا شرک‘ ہر شریعت حقہ اس کو مٹاتی آئی۔ تمام انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والسلام جب تک دنیا میں تشریف فرما رہے اس کی بیخ کنی میں مصروف رہے۔ شرک کسی حال میں جائز نہیں ہو سکتا اور محال ہے کہ خدا کی طرف سے شرک کا حکم دیا جائے باوجود اس کے ملائکہ کو حضرت آدم علیہ السلام کے سجدے کا حکم ہوا۔

برادران یوسف علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والتسلیمات کا حضرت یوسف علیہ السلام کو سجدہ کرنا قرآن کریم نے ذکر فرمایا۔ صورۃً یہ سجدہ اور نمازی کا سجدہ وضع جبہہ یا الحنا ہے یہ بات تینوں صورتوں میں پائی جاتی ہے‘ مگر حقیقت و حکم میں اشتراک نہیں ملائکہ اور برادران یوسف علیہ السلام کا سجدہ‘ حضرت آدم و یوسف علیٰ نبینا و علیہما السلام کی تعظیم تھا نہ عبادت۔ ورنہ اس کا حکم ہونا محال تھا۔ فرق یہ تھا کہ ملائکہ اور برادران یوسف علیہم السلام اپنے معظم کی الوہیت کا اعتقاد نہیں رکھتے تھے تو وہ سجدہ عبادت نہ ہوا‘ اور نمازی سجدہ میں مسجودلہ‘ کی الوہیت کا اعتقاد رکھتا ہے اس لئے اس کا سجدہ عبادت ہے‘ مگر چونکہ مسجودلہ‘ اس کا اللہ رب العزت تبارک و تعالیٰ ہے اس لئے یہ عبادت مقبول اور مامور بہا ہے۔ بت پرست کا سجدہ بھی باعتقاد الوہیت ہے اور چونکہ اس کا مسجودلہ‘ غیر خدا ہے اس لئے وہ شرک و ممنوع‘ موجب خسران و خذلان ہے۔ قبروں پر چادریں اور پھول ڈالنا اور بتوں کے آگے پھول پیش کرنا ان دونوں میں وہی فرق ہے کہ قبروں پر پھول لے جانے والا صاحب قبر کو الٰہ اور قادر بالذات و استقلال نہیں اعتقاد کرتا اس کو خدا کا خالص بندہ جانتا ہے نہ خدائی کا شریک یا حصہ دار‘ نہ معاذ اللہ چھوٹے درجہ کا خدا‘ اور بت پرست‘ بت کو الٰہ اور قادر بالذات اور بالاستقلال اعتقاد کرتا ہے۔ فافترقا۔ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر سورہ بقرہ میں فرماتے ہیں: پیشانی برزمین رسانیدن ہر دو طریق واقع میشودیکے آنکہ برائے ادائے حق عبودیت باشد ایں قسم درجمیع ادیان مال برائے غیر خدا حرام و ممنوع است و ہیچ گاہ جائز نہ شد زیراکہ از محرمات عقلی است‘ و محرمات عقلیہ بتبدل ادیان وملل متبدل نمی شوند و دلیلش آنکہ ایں نوع تعظیم مشعر لغایت تذلل است وغایت تذلل براے کسے سزاوار ہست کہ درغایت عظمت باشد وغایت عظمت آنست کہ ذاتی باشد‘ وعظمت ذاتی خاص بحضرت حق است درہیچ مخلوقے یافتہ نمی شود۔ دوم آنکہ برائے تکریم و تحیت باشد مانند سلام و سرخم کردن و ایں معنی باختلاف رسوم و عادات و تبدل ازمنہ و واقعات مختلف است گاہے جائز و گاہے حرام در امتہائے سابقہ جائز بود چنانچہ در قصۂ حضرت یوسف و اخوان ایشاں واقع شدہ کہ وخروا لہٗ سجدا۔ واللہ سبحانہ تعالٰی اعلم۔

کتبہ: العبد المعتصم بحبلہ المتین

سید محمدنعیم الدین عفا عنہ المعین

۱۰؍ شعبان المعظم۔ ۱۳۵۸؁ھ





مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad