AD Banner

( وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّـلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْراً کی تفسیر)

( وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّـلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْراً کی تفسیر)

استفتاء:۔ آیات ذیل کی مطابقت باہمی بدلائل قرآنی سورۂ سباء کی آیت نمبر ۲۸ وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّـلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْراً سے فرما دیجئے کیوں کہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے انسانوں اور قوموں کی ہدایت کے واسطے نازل ہوئے ہیں تو آیات ذیل میں خصوصیت خاص قوم کی کیوں کی گئی ہے جس سے شبہ ہوتا ہے کہ آپ کی رسالت انبیاء علیہم السلام کی قوم پر نہ تھی۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّـآ اَتٰـہُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِکَ لَعَلَّہُمْ یَہْتَدُوْنَo (سورۃ السجدہ۔ آیت نمبر ۳) لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَo (یٰس)

الجواب بعون الملک الوھاب

آیات مذکورہ میں اصلاً اختلاف نہیں۔ نہ آیت سورہ سجدئہ یا سورئہ یٰس سے کسی قسم کا کوئی شبہ پیدا ہوتا ہے۔ اولاً اس لئے کہ ثبوت نفی ماعدا کی دلیل نہیں ہوتا تو کسی قوم کے لئے آپ کا نذیر ہونا دوسری اقوام کے نذیر ہونے کا انکار نہیں۔ اگر کسی شخص کو کہا جائے کہ یہ حکیم ہیں تو اس کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ وہ رئیس نہیں ہے ورنہ خصوصیت کے ساتھ حکیم ہونے کا ذکر کیوں کیا جاتا؟ یا کسی شخص کو کہا جائے کہ آپ اس گاؤں کے زمین دار ہیں تو اس سے لازم نہیں آتا کہ اور کسی گاؤں کے زمیندار نہیں یا کسی استاذ سے کہا جائے کہ یہ لڑکا آپ کی شاگردگی میں اس لئے دیا گیا کہ آپ اس کے اخلاق کی درستی کریں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اس کے سوا اور کسی لڑکے کے استاذ ہی نہیں ایسا سمجھنا سراسر جہل و نادانی ہے۔

قرآن پاک کی آیات مبارکہ خود دلالت کرتی ہیں کہ بعض مقامات پر حسب موقعہ بعض افراد کا ذکر کرنا منافی عموم نہیں ہو سکتا۔ جیسے قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے: خالق کل شیء ’’اللہ ہر شے کا خالق ہے‘‘۔ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: واللہ خلقکم وما تعملون ’’اللہ نے تمہیں اور تمہارے اعمال کو پیدا کیا‘‘۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ دونوں آیتوں میں مخالفت ہے‘ اور دوسری آیت سے شبہ ہوتا ہے کہ انسان اور اس کے عمل کے سوا کائنات میں سے اور کسی چیز کا اللہ تعالیٰ خالق نہیں ہے۔ معاذ اللہ ایک آیت میں ارشاد ہوا: یایھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم والذین من قبلکم ’’اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا‘‘۔ دوسری آیت میں ارشاد ہوا: یایھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منھا زوجھا ’’اے لوگو! اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی زوجہ کو پیدا کیا‘‘۔ کیا کوئی نادان کہہ سکتا ہے کہ ان آیتوں سے شبہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ صرف انسانوں ہی کا خالق ہے اور کسی چیز کا نہیں۔ (العیاذ باللہ

تعالیٰ) اگر صرف ایک قوم کے لئے نذیر ہونے کا ذکر کیا جاتا تو بھی وہ دوسری قوم کے حق میں نذیر نہ ہونے کی دلیل نہ ہو سکتا۔ چہ جائیکہ سورئہ سباء کی آیت میں ارسال عام کا صاف و صریح ذکر موجود ہے۔ پھر شبہ کا کیا محل۔ علاوہ ازیں اور بہت سی آیات اس مدعا کی مثبت ہیں: وما ارسلنک الا رحمۃ للعٰلمین‘ ولتکون للعٰلمین نذیرا۔ وغیرہا من الآیات۔

ثانیاً

سائل کا یہ قول کہ آیات ذیل میں خصوصیت خاص قوم کی کیوں کی گئی۔ یہ سوال ایک غلط دعویٰ پر مشتمل ہے۔ ان آیات میں کسی قوم کی خصوصیت نہیں کی گئی کہ حضور صرف اسی قوم کے لئے یا خاص اسی قوم کے لئے نذیر بنائے گئے۔ اس معنی پر دلالت کرنے والا کوئی لفظ آیات میں نہیں۔ یہ قرآن پاک پر افترا و بہتان ہے۔ اس میں یہ نہیں فرمایا گیا: لئلا تنذر الا قوماً ما اتھم جس سے خصوصیت سمجھی جائے۔ ذکر خاص تخصیص عام نہیں ہوتا اگر زید کو کہا جائے کہ وہ بکر کا باپ ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ خالد کا باپ نہیں خاص ایک بیٹے کا ذکر کرنا زید کے باپ ہونے کی اسی کے ساتھ تخصیص نہیں کرتا ہاں اگر یہ کہا جاتا کہ زید بکر ہی کا یا صرف بکر کا باپ ہے تو تخصیص ہوتی آیت میں ایسا کہاں ہے؟

ثالثاً

آیات سورئہ سجدہ و سورۂ یٰس میں قوم خاص مراد ہونے پر معترض کے پاس کون سی دلیل قطعی ہے۔ حاشیہ تفسیر جلالین جمل میں قوماً کی تفسیر میں فرمایا: ای العرب وغیرھم۔ اس تفسیر پر سارے ہی عرب و عجم مراد ہیں تو خصوص بھی ندارد چہ جائیکہ تخصیص ارسال۔

کتبہ

 العبد المعتصم بحبل اللہ المتین

محمد نعیم الدین خصہ اللہ تعالیٰ بمزید الصدق والیقین



مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad