AD Banner

{ads}

( زکوٰۃ کی رقم سےفنڈ قائم کرنا صحیح ہے یا نہیں؟)

 ( زکوٰۃ کی رقم سےفنڈ قائم کرنا صحیح ہے یا نہیں؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
مسئلہ:۔کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زکوٰۃ کی رقم سے قوم کی فلاح و بہبود کے لیے فنڈ قائم کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع فراہم کریں ۔
المستفتی:۔ مدثر خان سورت
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوہاب
تملیک فقیر زکوٰۃکا عظیم رکن ہے اس کے بغیر اداںٔیگی زکوٰۃ ممکن نہیں جیسا کہ ہدایہ میں ہے التملیک و ھو الرکن ، اور فی نفسہ کسی ادارے یا تنظیم میں یہ صلاحیت موجود نہیں کہ وہاں زکوۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہو اور نہ ہی فلاحی اداروں و تنظیموں کو زکوٰۃ کی رقم بغیر تملیک فقیر کے کسی مد میں خرچ کرنا جائز ہے ۔ ہاں اگر تملیک فقیر کے ساتھ قوم کی فلاح وبہبود کے لئے فنڈ قائم کی جائے تو زکوٰۃ بھی ادا ہو جائے گی اور اس قسم کا فنڈ قائم کرنا بھی جائز و درست ہوگا ۔ ایسا ہی تنویر الابصار ودر مختار میں ہے ( ویشرط ان یکون الصرف تملیکا لا یصرف الی بناء نحو مسجد )
  اس کے تحت حاشیہ میں علامہ شامی قدس سرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں ( قوله نحو مسجد)  کبناء القناطیر والسقیات واصلاح الطرقات وکری الانھار والحج والجھاد وکل مالا تملیک فیہ)زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے شرط ہے کہ اس کا صرف بطور تملیک ہو اسی وجہ سے زکوٰۃ کو مسجد پل پانی پینے کی سبیلوں اور سڑکوں کی مرمت اور نہروں کی کھدائی اور حج یا جہاد وغیرہ امور میں الغرض ہر کام جہاں تملیک نہ پائی جاتی ہو اس میں زکوۃ کو نہیں خرچ کر سکتے ۔( در مختار مع رد المحتار ج ۳ ص ۳۴۱ / ۳۴۲ دار المعرفت بیروت ) 
   سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان ربہ القوی تحریر فرماتے ہیں زکوٰۃ کا رکن تملیک فقیر ہے جس کام میں فقیر کی تملیک نہ ہو کیسا ہی کار حسن ہو جیسے تعمیر مسجد یا تکفین میت یا تنخواہ مدرسان علم دین اس سے زکوۃنہیں ادا ہو سکتی۔ ( فتاوی رضویہ ج ۱۰ ص ۲۶۹ رضا فاؤنڈیشن لاہور )واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد صفی اللہ رضوی خان 
الجواب صحیح  والمجیب نجیح
ابوالحسنین محمد عارف محمود معطر قادری



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner