AD Banner

{ads}

حضرت بی بی ستر معلی کی وفات

 حضرت بی بی ستر معلی کی وفات


جب قاصد حضرت سالار سا ہو کے پاس کا ہیلر میں پہونچ کر صحت نامہ دیا۔ سالا رسا ہو کو حجام کی حرکت سے سخت ملال ہوا۔ اس صدمے سے حضرت بی بی ستر معلی کی عجیب کیفیت ہوئی۔ لب پر نالہ وفغاں تھا۔ بار بارخط پڑھواتی تھیں غشی پر غشی طاری ہوتی تھی۔ سالا رسا ہو سمجھاتے تھے کہ خدا نے جان بچائی۔ ایسے موقع پر صدقہ دینا روا ہے۔ وہ رو کر جواب میں فرماتی تھیں کہ جب تک میں اپنے لخت جگر مسعود کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں گی اس وقت تک مجھے چین نہ آئے گا۔ بیٹے کی جدائی میں بہت زیادہ غمگین رہنے لگیں۔ اتنا زیادہ غم لاحق ہوا کہ اسی صدمے سے بیمار ہو گئیں اور کسی علاج سے فائدہ نہ ہوا۔ آخرش بارہویں روز فرزند ارجمند کی جدائی کے سبب ۴۲۰ھ میں انتقال کر گئیں ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون ۔ 

سالار سا ہو کو صدمئہ کمال ہوا۔ جنازہ پڑھ کر لاش غزنی بھیجوا دیا اور اپنے لشکر کو لے کر سالار مسعود سے ملنے ستر کھ میں چلے آئے ۔ حضرت سالار مسعود ستر کھ میں اپنی والدہ مکرمہ کی وفات کی خبر سن کر سخت بے چین ہو گئے ۔ خون دل نے جوش مارا محبت مادری نے بے ہوش کر دیا۔ جب بے تابی کی وجہ سے گھبراتے تھے تو یہ جملہ

زبان پر لاتے تھے کہ مخدومئہ عالم نے ہماری بیماری کی خبر سن کر جان دے دیں لیکن مجھے خبر بھی نہ کیں۔ اب ہر دم میرا ناز کون اٹھائے گا؟ میرے سینے پر دست شفقت کون پھیرے گا۔ ایسے درد بھرے کلام فرماتے تھے کہ سننے والوں کے دل پھٹے جاتے تھے۔

جاسوس پکڑے گئے

مرأة مسعودی میں تحریر ہے کہ جب سالا رسا ہو ستر کھ میں تشریف لائے تو اس کے چند ہی روز کے بعد ملک فیروز شاہ جو سرکار غازی کی فوج کے ایک ہوشیار سردار تھے ۔ انھوں نے دریائے سر جو پر نگرانی کے لئے چند آدمیوں کو مقرر کر رکھا تھا۔ اسی اثناء میں کٹرہ کا راجہ دیونرائن اور مانک پور کا راجہ بھوج پتر نے بہرائچ اور اطراف کے تمام والیان ریاست کو ایک پیغام بھیجا جس کو لے جاتے ہوئے تین جاسوس خط کے ساتھ پکڑے گئے ۔ دو تو وہی جادو گر جو کٹرہ اور مانک پور کے راجہ کی طرف سے زین و لگام پر سحر لائے تھے اور تیسرا وہی حجام جس نے قتل کا بیڑا اٹھا کر زہر میں بجھی ہوئی نحرنی بطور ہدیہ پیش کیا تھا۔ حضرت سالا رسا ہو نے حکم دیا کہ ان تینوں کو پھانسی دے دی جائے ۔ لیکن حضرت سالار مسعود نے فرمایا کہ ان تینوں کو قتل کرنے سے کیا فائدہ؟ چھوڑ دیجئے ۔ حضرت سالار سا ہو نے فرمایا کہ ان دونوں برہمنوں کو تو میں اپنے فرزند عزیز کی وجہ سے رہا کرتا ہوں مگر اس حجام کو ہرگز نہ چھوڑوں گا۔ سالا رسا ہو کے حکم سے حجام کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس کے بعد ان جاسوسوں سے برآمد کیا گیا خط پڑھا گیا۔ حاکم مانک پور نے اس طرح کا مضمون لکھا تھا کہ ہم لوگ اس طرف سے حملہ آور ہوتے ہیں اور بہرائچ کے راجہ کی ہمراہی میں تم لوگ دوسری طرف سے حملہ کرو تو فتح جلد ہو جائے گی۔

کیوں کہ مسلمانوں نے ہمیں تنگ کر رکھا ہے۔ سالار سا ہو کو بہت غصہ آیا اور اسی وقت دو مخبر راجگان کٹره و مانک پور کی نقل و حرکت معلوم کرنے کے لئے بھیج دیا۔ مخبروں نے آکر اطلاع دی کہ دونوں راجا اس وقت ہماری طرف سے بالکل بے فکر ہو کر لڑکے اور لڑکی کی شادی میں مصروف ہیں ۔ جنگ کا خیال نہیں ہے۔ یہ سن کر سالا رسا ہو راتوں رات ایک بھاری فوج لے کر دشمن کی طرف چل پڑے۔ 

کٹرہ اور مانک پور کی فتح

بالآخر جب قریب پہونچے تو حضرت سالار سا ہو نے اپنی فوج کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک حصے نے کٹرہ کا اور دوسرے حصے نے مانک پور کا محاصرہ کر لیا اور خوب گھمسان کا معرکہ ہوا ۔ مسلمانوں کی ہمت و دلیری کی وجہ سے دشمن جلد ہی شکست کھا کر بھاگ گئے اور بے شمار مارے بھی گئے اور دونوں حکمراں گرفتار کر لئے گئے ۔ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر ہیڈ کوارٹر   ستر رکھ بھیج دیا گیا۔ بقیہ قیدیوں کو بہرائچ بھیج کر سالار سیف الدین کے حوالے کر دیا گیا۔ پھر حضرت سالا رسا ہو نے کٹرہ و مانک پور پر قبضہ کر کے ملک عبداللہ کو کٹرہ کا حاکم بنایا اور ملک قطب حیدر کو مانک پور دے کر خو د ستر کھ میں آگئے ۔ خدا کی بارگاہ میں سجدہ شکر ادا کیا۔ اس معرکے میں مخالفین کا حوصلہ ٹوٹ گیا۔ ابھی تک جنگ کی نوعیت ریاستی بچاؤ کی تھی۔ مگر اب اس کو ہندو راجاؤں نے مذہبی رنگ دے دیا اور تمام رجواڑے گرفتار ہونے والوں کی مدد کے لئے جمع ہونے لگے۔ متفق ہو کر بہرائچ کا محاصرہ کر لیا اور سالا رسیف الدین کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔(سوانح مسعود غازی ص۔ ۵۸/ ۵۹)

طالب دعا

محمد ابرارالقادری




مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner