دریائے کتھلہ پر دوسری جنگ عظیم
ابھی دو مہینے بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ کوہستان و ہند کے تمام را جاؤں نے مل کر بے شمار فوج اکٹھا کر کے دریائے کتھلہ کے کنارے ڈیرے ڈال دیئے اور پہلے سے کہیں زیادہ جوش و خروش اور تیاری کے ساتھ جمع ہوئے ۔ بہر دیو اور سہر دیو ان را جاؤں میں ایک اونچی حیثیت کے مالک تھے اور انھیں فوجی طاقت میں استحکام حاصل تھا۔ سہر دیو نے اس جنگ میں رائے یہ دی کہ میدان جنگ میں لوہے کی زہریلی کیلیں بچھا دی جائیں تا کہ مسلمانوں کے گھوڑے زخمی ہو کر زمین پر گریں ۔ اور کیل کی نوک اگر کسی انسان کے جسم پر چبھ جائیں تو وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ وہ بارودی گولے تیار کئے جائیں جس میں آگ لگا کر پھینکنے سے خوفناک انداز میں آگ لگ جائے۔ یہ سارا انتظام مکمل ہونے کے بعد ان دشمنوں نے ایک آدمی حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں روانہ کیا اور کہلا بھیجا کہ اگر تم اپنی زندگی چاہتے ہو تو دریائے سر جو کے اس پار چلے جاؤ۔ یہ ملک ہمارے باپ داداؤں کا ہے۔ یہاں تمہارے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ سن کر آپ بہت سخت برہم ہوئے اور فرمایا کہ جاؤ کہہ دو کہ ہمارے قدم اب تک خدا کے فضل و کرم سے پیچھے نہیں ہٹے ہیں اور نہ ہی ان شاء اللہ پیچھے نہیں گے۔
ایلچی نے واپس آکر اپنے راجاؤں کو یہ بیان دیا۔ دوسرے دن حملہ کی تیاری ہورہی تھی کہ اسی وقت خبر ملی کہ دشمنان خدا ہمارے لشکر کے مویشی کھول لے گئے ہیں۔ یہ سن کر حضرت سرکار غازی نے جنگ کا نقارہ بجانے کا حکم دیا اور خود بھی مسلح ہو کر گھوڑوں پر سوار ہو کر اپنی فوج کے سامنے آئے ۔ فوج کی صفوں کو درست کرنے کے بعد فورا دشمنوں کی فوج پر چڑھائی کر دی۔ تھوڑی دیر میں دونوں فوجوں میں گھمسان کی جنگ ہونے لگی۔ پہلے ہی حملے میں دشمن بیچ سے میدان خالی کر کے پیچھے ہٹنے لگے۔ اور مسلمان پوری دلیری کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ انہیں کیا معلوم کہ گھوڑوں کے پیر زہریلی کیلوں سے چھلنی ہو رہے ہیں۔ کسی پریشانی کا خیال کئے بغیر مسلمان آگے بڑھتے ہی گئے۔ جنگ دست بدست ہونے لگی تو ہندوؤں کے پچھلے حصے نے آتشی گولوں کا استعمال کرنا شروع کر دیا جس سے مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا۔ لیکن اسد اللہ الغالب کے نور نظر نے اپنی شجاعت و بہادری کے وہ جو ہر دکھائے کہ دشمنوں کو کھیرے اور ککڑی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ راجپوت ان تمام کوششوں کے بعد بھی جم نہ سکے اور میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔ ان را جاؤں کی راجپوتانہ بہادری کے سارے کارنامے دریائے کتھلہ کے کنارے دفن ہو گئے۔ نصرت الہی نے فتح مبین کا مژدہ سنایا۔ جنگ ختم ہوئی تو حضرت نے لشکر کے شمار کرنے کا حکم دیا۔ شمار کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ تین لاکھ چار ہزار مسلمان شہید ہو گئے ہیں۔ یعنی فوج کا ایک حصہ شہید ہو گیا ہے اور دو حصہ باقی ہے۔ آپ نے تین روز قیام کر کے شہداء کی تجہیز و تکفین فرمائی پھر چوتھے روز بہرائچ واپس تشریف لائے۔ چوں کہ اب تک بہت سے مصاحبین اور پرانے کئی ساتھی جنگوں میں شہید ہو چکے تھے۔ اس لئے ان کی جدائی کا غم بہت رہا کرتا تھا۔ اور دل بہلانے کے لئے اکثر سوار ہو کر باغ کی سیر کرنے کے لئے چلے جاتے تھے۔ وہاں اپنے سامنے پودے لگواتے ۔ کبھی کبھی اسی چبوترے پر جو سورج کنڈ کے کنارے تھا بیٹھ جاتے تھے۔ ہنود اسی طرف سے تالاب پر آتے تھے اور بہت پر ہار پھول چڑھا کر اس کی پوجا کرتے تھے۔ جب آپ کی نظر اس منظر پر پڑتی تھی تو آپ کو ناگواری ہوتی تھی ۔ ملک رجب نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ حضور نے یہاں باغ لگوایا ہے اور اکثر سیر و تفریح کے لئے یہاں تشریف لاتے ہیں اور اکثر یہاں پر نماز بھی پڑھتے ہیں ، اگر حکم ہو تو اس بت کو توڑ ڈالوں ۔ اس کا رگ وریشہ نکال ڈالوں ۔ آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ یہ ایک راز خداوندی ہے جو تمہاری فہم وفراست سے بالا تر ہے۔ چند روز میں یہ ظلمت خود بخود دور ہو جائے گی اور حکم خدا سے یہ زمین پر نور بن جائے گی۔ معیشت ایزدی پر اپنی نظر ہے مگر جب بوئے شرک آتی ہے تو طبیعت گھبراجاتی ہے۔ اتنا کہہ کر حالت وجد میں آگئے ، چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ ملک رجب یہ دیکھ کر گھبرا گئے۔ خوف و دہشت سے تھرا گئے۔ دست بستہ عرض کیا کہ میں نے اپنی سمجھ کے مطابق گذارش کی تھی ۔ حق وہی ہے جسے آپ کی نگاہ کرم دیکھ رہی ہے۔ میں معافی کا طلبگار ہوں اور بہت شرمسار ہوں۔ حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ دو گھڑی کے بعد اصلی حالت پر آئے ۔ اس کے بعد آپ واپس بہرائچ تشریف لائے۔ دو چار مہینے عالم شہود اور وحدت وجود کی منزل کے مزے لینے میں گزر گئے۔ ہمت و شجاعت و فہم وفراست، جود و سخاوت میں طاق تھے۔ حسن یوسفی خلق محمدی ، ولایت حیدری، کمالات عرفانی میں شہرہ آفاق تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت کے بعد کسی دوسرے کو ایسا مجموعہ صفات نہیں پیدا فرمایا۔ کسی ولی اللہ کو ایسا رتبہ عطا نہیں ہوا۔(سوانح مسعود غازی ص۔ ۶۷/ ۶۹)
طالب دعا
محمد ابرارالقادری
مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔