AD Banner

{ads}

آخری فیصلہ کن معرکہ

 آخری فیصلہ کن معرکہ

ادھر ہندوؤں کے مذہبی لیڈروں نے پورے ملک میں دھرم رکشا کے نام پر لوگوں کو ابھارا۔ دور دراز کے راجاؤں نے آزمودہ کارسپاہیوں کی کمک روانہ کی۔ را جاؤں نے اعلان کر دیا کہ ہر دس بھائیوں میں نو بھائی کو میدان جنگ میں جانا ضروری ہے۔ بڑے بڑے جٹا دھاری سادھوں ،سنتوں اور پنڈتوں نے سورج دیوتا کے نام پر پورے شمالی ہند میں آگ لگا دی۔ ہر چہار جانب سے سیلاب کی طرح امنڈتا ہوا لشکر بہرائچ چلا آ رہا تھا۔ ہمالیہ کے دامن سے لے کر دریائے گھا گھرا تک ٹڈی دل فوج لگ گئی۔

جب اس کی اطلاع حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو آپ نے تمام اراکین دولت کو پیادہ سے سوار تک ، چھوٹے سے بڑے تک سب کو دیوان عام میں بلا کر ارشاد فرمایا، دوستو! آپ سب نے آج تک وطن سے لے کر یہاں تک ہمارا ساتھ دیا ہے۔ میں آپ سب کا بہت احسان مند ہوں۔ اب وقت آخر آپ سے میری یہ التجا ہے کہ جس کو میں نے ستایا ہو یا میری ذات سے اگر کسی کو تکلیف پہونچی ہو تو مجھے خدا کے واسطے دل سے معاف کر دے۔ اب تک جتنی بھی سخت مہم پیش آئی ہے ، خدا کے فضل سے ہم نے فتح حاصل کیا ہے۔ لیکن اب تمام امرائے ہنود اکٹھا ہو گئے ہیں۔ ان کا لشکر بے انتہا ہے اور ہمار الشکر بہت مختصر ہے۔ مگر ہم تو اپنے آباء واجداد کا طریقہ نہ چھوڑیں گے ۔ جنگ سے کبھی بھی منھ نہ موڑیں گے۔ میری طرف سے آپ سب کو اجازت ہے کہ جس قدر مال وزر کی ضروت ہو خزانے سے لے لو اور اپنی اپنی جانیں بچا کر گھر جانے کی تیاریاں کر لو۔ البتہ جو ہماری طرح بے گھر بار ہو اور شہادت کا طلب گار ہو اور محبت الہی کا جوش اس کے سینے میں موجزن ہوا سے اختیار ہے؛ چاہے گھر چلا جائے یا ہمارے ساتھ شہید راہ وفا ہو جائے۔ اتنا کہہ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اس وقت سالار مسعود کی گریہ وزاری لشکر کی بے قراری اور اراکین کی بے تابی سے ایک حشر بپا تھا۔ عجیب تلاطم مچا تھا۔ سبھی نے مل کر جواب دیا : اے مملکت حق و صداقت کے شہر یار! اب ہم آپ کو چھوڑ کر کہاں جائیں گے ۔ آپ کے سوا ہمار اس دنیا میں ہے کون جس کے لئے زندہ رہنا ہے۔ اے مولائے کائنات علی مرتضیٰ کے فرزند ارجمند ہمیں اپنے قدموں پر نثار ہونے کا موقع دیں۔ ہماری سب سے بڑی خوش قسمتی یہی ہوگی کہ آپ ہمیں خود قربان ہوتا ہوا دیکھیں اور ہماری جانثاری کو ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت نے فرمایا اگر تم سب کی یہی رضا ہے تو پھر دیر کس بات کی۔ کمر ہمت کس لو اور میدان کارزار میں نکل پڑو۔ اتنا کہنے کے بعد آپ نے اپنے ہاتھوں کو دعا کے بلند کیا اور عرض کیا مولیٰ تعالیٰ تو ہم سب کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ اور دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی طاقت عطا فرما۔ دعا سے فراغت کے بعد حضرت نے تمام نقد وجنس فوج میں تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ پھر چند ہزار پیادے اور سوار کو بطور مقدمتہ الجیش دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے بہرائچ سے دو کوس آگے روانہ فرما دیا۔ اور خود خلوت سرا میں تشریف لائے ۔ اسی وقت سے کھانا پینا چھوڑ کر عطر و پان بکثرت استعمال کرنے لگے۔ ہر وقت شوق شہادت میں دل انگڑائیاں لیتا رہا۔

۱۳ رجب المرجب ۴۲۴ھ بروز سنیچر صبح کاذب کے اندھیرے میں کفار نے سیدنا سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ کے مقدمتہ الجیش پر حملہ کر دیا۔ غازیان اسلام نے بھی خوب جم کر مقابلہ کیا۔ جب حضرت کو اس بات کی اطلاع ملی تو فورا کوچ کے نقارے پر چوب لگائی۔ امیران نامدار کو بلا کر سالار سیف الدین کو حکم دیا کہ تم چوکی دستے کی مدد کرو، ہم بھی آرہے ہیں ۔ پھر آپ نے غسل فرما کر لباس شاہانہ زیب تن کیا، عطر لگایا۔ اور شمشیر و خنجر حیدری زیب کمر کیا اور تاج شاہی سر پر رکھا۔ گھوڑے کو بھی تمام زیورات سے سجا کر دولہا بنایا اور نماز ادا فرما کر شہادت کی دعا کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہوئے ۔ تمام فوج کو جس کی تعداد تین لاکھ تیس ہزار تھی؛ مقدمہ میمند، میسرہ، قلب و عقب میں ترتیب دے کر کوچ فرمایا۔ سورج کنڈ کے پاس جو ایک مہوے کا درخت تھا، جس کے نیچے عالم خواب میں اپنا جائے مدفن دیکھا تھا وہیں پر آکر آرام کیا۔ اسلامی لشکر جاتے ہی دشمنوں پر ٹوٹ پڑا۔ دشمن تیر اندازوں نے تیروں کا مینہ برسانا شروع کیا اور بر چھیاں چمکانے لگے۔ ادھر غازیان اسلام نے بھی نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے یکبارگی ٹوٹ پڑے ۔ خوب دلیری اور دل کھول کر لڑے۔ جس پر بھی تلوار کا ایک وار کرتے وہ شعلہ شمشیر سے جل کر فنافی النار ہو جاتا۔ جو بھی شمشیر آبدار کے قبضے میں آیا وہ موت کے گھاٹ اتر گیا۔ وہ بڑے بڑے مہنت جو ناقوس و گھنٹہ بجا کر ہر وقت پرستش میں سر پٹکتے تھے، لات و منات پر جان و دل سے فدا تھے اور اپنی بہادری میں شہرہ آفاق تھے ، بڑھ بڑھ کر حملہ کرتے تھے مگر ایک ہی آن کے بعد ان کے جسم غازیان اسلام کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اور پیادوں کی لاتوں سے حلوہ بن چکے تھے۔ غرضیکہ صبح سے شام تک ایک حشر بپا تھا، موت کا بازار کھلا تھا، دوزخ و بہشت کی خریداری ہو رہی تھی ۔ حدود نیپال سے پہاڑوں کے نیچے دریائے گھاگھرا تک دشمنوں کی فوج کا پڑاؤ تھا۔ دونوں طرف سے لاکھوں آدمی مارے جاچکے تھے مگر جب جنگ کا کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ یہاں تک کہ ۱۳؍ رجب ۲۲۴ھ کا سورج شہدائے اسلام کو آخری سلام کر کے غروب ہو گیا۔ اب چودہ رجب کی شب ہے۔ مجاہدین عبادت الہی میں مشغول ہو گئے ہیں۔ خیمہ غازی میں بندگی کا سجدہ ادا ہونے لگا۔ قربان جاؤں اس سجدے پر جو دشمنوں کے نرغے میں ادا کئے گئے۔ رات عبادت الہی میں ختم ہو گئی۔ مؤذن نے صبح کی اذان دی۔ مجاہدین اسلام ضروریات سے فارغ ہو کر وضو کئے اور نماز کے لئے کھڑے ہو گئے ۔ ابھی نماز سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ دشمنوں کی مزید فوج آگئی اور نقارہ جنگ بجا دیا۔ اعلان جنگ ہوتے ہی بہادر سپاہی بے تحاشہ لڑائی کی آگ میں کود پڑے اور اپنی جان راہ خدا میں قربان کرنے لگے۔ بہت سے بڑے بڑے امیر اور بے شمار ترک فوجی اسی طرح شہید ہو گئے ۔ یہاں تک کہ صبح سے ظہر تک لشکر اسلام کے پیادہ و سوار دو حصہ راہ خدا میں قربان ہو گئے ، صرف ایک حصہ بچے۔

حضرت جب کسی کے شہادت کی خبر پاتے تھے تو رو کر فرماتے تھے کہ شکر ہے کہ اس کی عاقبت بخیر ہوئی۔ لیکن سالا رسیف الدین، امیر نصر اللہ اور امیر رجب وغیرہ کے شہادت کی جب خبر ملی تو آپ کے چہرہ مبارک پر اداسی کے آثار نمایاں ہو گئے فراق احباب سے گھبرا گئے اور رو کر فرمانے لگے کہ افسوس ہمارے ساتھی ایک ایک کر کے دنیا سے منھ موڑ گئے ، ہم کو اس دشت و جبل میں یکا و تنہا چھوڑ گئے ۔ پھر ارشاد فرمایا کہ جس طرح سے بھی ہو سالا رسیف الدین اور ان کے تمام ساتھیوں کو دفن کرو ۔ خادموں نے حسب حکم کسی نہ کسی طرح دفن کر کے عرض کیا کہ حضور دشمن بہت غالب آچکے ہیں اور ہماری فوج کے جیالوں کو ختم کر چکے ہیں۔ ایسی حالت میں کہئے تو ہم لوگ جنگ کریں یا دیگر شہیدوں کو دفن کریں، وقت بہت نازک ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ شہدائے کرام کو سورج کنڈ میں ڈال دو، ان کی شہادت کی برکت سے سورج کنڈ کے کفر کی ظلمت دور ہو جائے گی ۔ اور مابقیہ شہدائے اسلام کو غاروں اور کنوؤں میں ڈال کر پاٹ دو تا کہ کفار انھیں اپنا نا پاک ہاتھ نہ لگانے پائیں۔ آپ کے ساتھیوں نے ویسا ہی کیا۔ تمام غاروں ، کنوؤوں اور سورج کنڈ کو شہدائے کرام کی لاشوں سے پاٹ دیا۔ پھر حضرت جوش محبت سے بے قرار ہو گئے اور ہر ایک کو یاد کر کے اشکبار ہو گئے ۔

اس کے بعد آپ گھوڑے سے نیچے اترے اور تازہ وضو کر کے نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد مدفن شہدائے کرام پر آئے نماز جنازہ پڑھ کر دعائے مغفرت کی۔ (سوانح مسعود غازی ص۔ ۷۰/ ۷۳)


طالب دعا

محمد ابرارالقادری



مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner