AD Banner

حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رحمتہ اللہ ت کی شہادت

 حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رحمتہ اللہ ت کی شہادت

 حضرت مسعود غازی رضی اللہ عنہ سورہ فتح پڑھ کر گھوڑے پر سوار ہوئے اور ما بقیہ غازیان اسلام بھی آپ کے ساتھ چلے۔ ایک شخص جس کا نام سکندر دیوانہ تھا جو فہم و فراست میں فرزانہ تھا۔ حضرت ابراہیم بن ادہم کے سلسلے میں مرید تھا اور ایک کتا بھی تھا جو ہمیشہ ساتھ رہتا تھا یہ دونوں بھی آگے پیچھے حضرت کے ساتھ ہو لیے رزمگاہ میں پہونچتے ہی غازیوں نے تلواریں میانوں سے نکال لیں اور برچھیوں کو سنبھالتے ہوئے آپس میں یہ کہہ رہے تھے کہ آج ہم تلوار کا وہ وار کریں گے کہ دم میں کفار کو فنا فی النار کر کے رکھ دیں گے۔ ابھی یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ دور سے گرد اٹھی ، حضرت سالار مسعود نمودار ہوئے ، آن کی آن میں پہونچ گئے۔ سبھی نے ایک دوسرے کو خبر دی کہ ہوشیار ہو جاؤ کہ آج شیر خدا کے شیر نے خود جہاد کا قصد فرمایا ہے۔ بپھرا ہوا شیر میدان میں نکل پڑا ہے۔ آج معرکہ عظیم ہوگا ۔ غرضیکہ پہونچتے ہی فوج نے حملہ کر دیا، تلوار یں چمکنے لگیں ، خون کے فوارے ابلنے لگے ، زمین کانپ رہی تھی ، آسماں لرز رہا تھا، میدان دہل رہا تھا، فضا کا سینہ دھڑک رہا تھا، مسلمانوں میں غضب کا جوش و خروش تھا۔ مجاہدین اسلام نے کما نیں ، ڈھالیں اور تلواریں ہاتھوں میں لے رکھی تھیں۔ ان کے حملے کی شان سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ سب ہندوؤں کو ختم کر کے ہی دم لیں گے۔ ظالموں نے بڑی شدت سے حملہ کیا تھا مگر سامنے تو عزم و یقین کی چٹان تھی ، طاقت و جرات کا پہاڑ تھا۔ غیرت و ایمان کی شیشہ پلائی ہوئی دیوار تھی۔ حملہ آوروں کو جلد ہی معلوم ہو گیا کہ مقابلہ کس سے ہے۔ سالار مسعود کی برق شمشیر جس کے سر پر پڑتی تھی اس کے دو ٹکڑے کئے بغیر واپس نہ لوٹتی تھی۔ حیدر کا شیر کبھی نعرہ تکبیر اور نعرہ رسالت لگا کر رجز پڑھتا ہوا مجاہدانہ شان سے دشمنوں کی صفوں کو الٹ رہا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا۔ کہ جیسے بکریوں کی صفوں پر شیر نے چڑھائی کر دی ہو۔ سب اپنی اپنی جانیں بچانے کے لئے ایک دوسرے کے اوپر گر رہے تھے۔ حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ کی تلوار تھی یا قہر خداوندی کشتوں کے پشتے لگارہی تھی ۔ جدھر پڑتی خون کی برسات ہوتی جاتی ، گھوڑے زخمی ہور ہے تھے اور سوار ایک دوسرے پر گر رہے تھے۔ حیدر کا شیر  پسینے میں شرابور ہے مگر قوت پروردگار کا وہ مظاہرہ کرتا ہے کہ حیدر کرار کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔ دشمنوں کے سر بھی کٹ کٹ کر گر رہے ہیں اور ان کے ہتھیار بھی ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے ہیں۔ حضرت سالار مسعود حملے بھی کر رہے ہیں اور حملے روک بھی رہے ہیں۔ آپ پر بھی تلوار برس رہی ہے اور تیر بھی برس رہے ہیں۔ برچھیاں بھی اٹھ رہی ہیں اور نیزے بھی چل رہے ہیں۔ جسم اقدس پر کئی زخم آچکے ہیں مگر دشمنوں کے سامنے کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ ہونے دیا اور کفار نا ہنجار کو تباہ کر دیا اور بتا دیا کہ: 

 مرد حق باطل کے آگے مات کھا سکتے نہیں

 سر کٹا سکتے ہیں لیکن سر جھکا سکتے نہیں

تھوڑی ہی دیر میں کفار نے راہ فرار اختیار کیا۔ غازیوں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ سالار مسعود کی جدھر بھی نگاہ جاتی تھی سوائے شہدائے کرام کی لاشوں کے اور کوئی شی ، نظر نہیں آتی تھی ۔

قصہ مختصر یہ کہ رائے شہر دیو اور بہر دیو نے بھاگ کر ایک بلند ٹیکرے پر دم لیا۔ پھر خندقوں کی آڑ سے باغ کی گرد جمع ہو گئے اور اس تھوڑی فوج پر جو باغ میں بچ گئی تھی اس پر تیر برسانا شروع کر دیا۔ اچانک ایک تیر رائے شہر دیو کی کمان سے سنسنا تا ہوا نکلا اور حضرت سالار مسعود کی شہ رگ پر کارگر ہوا ۔ اس تیر کا لگنا تھا گویا پورا جسم خون میں شرابور ہو گیا۔ سواری پر جسم کا توازن قائم نہ رہ سکا۔ غشی طاری ہونے لگی۔ قریب تھا کہ گھوڑے سے نیچے گر جاتے کہ فوراً آپ کے ایک عاشق سکندر دیوانہ نے آگے بڑھ کر گھوڑے سے اتار لیا اور اسی مہوے کے درخت کے نیچے لٹا دیا۔ سراطہر اپنے زانو پر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ چہرہ مبارک قبلہ کی جانب کر کے بے قرار ہونے لگا۔ سرکار غازی نے اپنے اس دیوانے کی دل خراش سکیاں سن کر آنکھیں کھول دیں ۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ مسکرا کر کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے اس دار فانی سے دار جاودانی کی طرف کوچ فرما گئے۔ انا لله وانا اليه راجعون

۲۱ / رجب المرجب ۴۰۵ھ بروز اتوار صبح صادق کے وقت اجمیر شریف میں پیدا ہوئے ۔ اٹھارہ سال گیارہ مہینے چوبیس روز دنیا میں رہے اور انیسویں سال اول وقت عصر بروز اتوار ۱۴/ رجب المرجب ۴۲۴ کو بہرائچ شریف میں جہاد کر کے جام شہادت نوش فرمایا۔ تاریخ شہادت اس آیت کریمہ سے نکلتی ہے جسے شاعر نے بڑے اچھے انداز میں پرو دیا:

حضرت مسعود غازی خسرو شہدائے ہند

 بود ذات عالیش شرع نبی را منتظم

 یافت از حق چون حیات سرمدی تاریخ سال 

خود خدا فرمود بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ ۴۲۴

(سوانح مسعود غازی ص۔۷۴/ ۷۷)


طالب دعا

 محمد ابرارالقادری




مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad