( حضرت سالار مسعود غازی کی دانشمندی اور فہم و فراست)
تاریخ محمودی کا بیان ہے کہ جب لشکر سلطان سومنات کی فتح کے بعد غزنی آیا تو سلطان محمود نے سومنات بت کو جو اپنے ساتھ لائے تھے جامع مسجد غزنی کے دروازے کا سنگ آستانہ بنایا جس کو مسلمان جوتوں اور چپلوں سے روندتے ہوئے مسجد میں داخل ہوتے تھے۔ ہنود یہ تو ہین دیکھ کر آتش غیض و غضب میں جل بھن جاتے تھے ۔ مخالفین کو یہ امر بہت ہی ناگوار گزرا اور خواجہ حسن میمندی جو محمود غزنوی کا وزیر تھا اس کی معرفت یہ طے پایا کہ اس پتھر سے کئی گنا سونا لے کر بت ہمارے حوالے کر دیں۔ محمود غزنوی نے سونے کے عوض اس بت کو دینے کا وعدہ کر لیا اور پھر محل سرا میں آکر خلوت میں سالار مسعود سے مشورہ لیا کہ ہم نے تو بت دینے کا وعدہ کر لیا ہے ، آپ کیا فرماتے ہیں؟ ایسے نازک وقت میں حضرت سالار مسعود غازی کی دانشمندی اور فہم و فراست دیکھئے حضرت نے ارشاد فر مایا کہ جو بادشاہ کی مرضی ہو لیکن آج تو بت دے کر سونا لے لیں گے مگر روز قیامت کیا کریں گے جب حشر کا دن آئے گا تو خدائے وحدہ لاشریک ارشاد فرمائے گا کہ آذر بت تراش کو بلاؤ اور اے فرشتو ! محمود بت فروش کو بھی اپنے ساتھ گھسیٹ لاؤ۔ اس وقت قیامت میں کس قدر ندامت ہوگی ۔ کوئی سعی و سفارش کام نہ آئے گی ۔ فوج و سپاہ ، رشوت و نذرانہ، روپیہ پسیہ و، زرو جواہر کوئی بھی چیز تمہیں خدا کے عذاب سے بچا نہیں پائے گی ۔ ایک خلقت کے سامنے اسلام میں بٹہ لگ جائے گا۔ بادشاہ یہ سن کر لرزہ براندام ہو گیا۔ سالار مسعود کو سینے سے لگا کر مرحبا، جزاک اللہ کہا اور کہا کہ میں حیران ہوں کیا کروں؟ اس لئے کہ وعدہ خلافی اسلام کے شایان شان نہیں ہے اور ایفائے وعدہ میں اسلام کا فتور ہے۔ سالار مسعود نے فرمایا کہ آپ وعدہ خلافی نہ کریں بلکہ بت ہمیں دے دیں اور جب ہنود آئیں گے تو آپ انھیں میرے پاس بھیج دیں گے ، ہم ان سے سمجھ لیں گے۔ سلطان نے کہا بہتر ہے، ہمیں اس عذاب سے بچاؤ۔ چنانچہ وہ بت جب سالار مسعود کے کفش خانہ میں آیا تو فورا ناک کان کاٹ کر اس کا چونا بنا دیا جس کا کچھ حصہ پان میں بھگا دیا اور کچھ حصہ صندل میں ملا دیا۔ جب بت پرستوں کی جماعت نے خواجہ وزیر احمد کے ساتھ سلطان سے بت طلب کیا تو سلطان نے کہا کہ فرزند مسعود کے پاس جاؤ اور لے لو۔ غرضیکہ جب پرست سالار مسعود کی خدمت میں آئے تو حضرت نے خادموں سے فرمایا کہ ان سب کو بڑی عزت کے ساتھ بٹھاؤ اور صندل و پان لے کر ان کی خاطر و تواضع کرو۔ وہی صندل اور اسی تبرک کے پان آئے ، سب نے صندل کا قشقہ بنا کر ٹیکا لگایا اور پان کھایا پھر بت طلب کیا آپ نے جواب دیابت پا چکے ہو۔ پان میں اسی پتھر کا چونا کھا چکے ہو اور صندل میں بھی تبر کا ملایا ہے جس کا تم سب نے پیشانی پر ٹیکا لگایا ہے۔ پھر تو وہ سب حیران ہوئے اور بہت شرمندہ ہوئے ۔ کوئی قے کرنے لگا اور کوئی آتش غیض و غضب میں جلنے لگا۔ روتے ہوئے وزیر خواجہ احمد میمندی کے پاس آئے اور سب ماجرا سنایا کہ سالار مسعود نے ہمیں بے دھرم بنایا۔ اس بات کو سن کر وزیر کو طیش آ گیا اور اس نے مخالفین کو بھڑکا یا کہ تم سب جا کر ملک میں فساد اور غدر مچاؤ۔ القصہ سلطان محمود نے اس بت کا چار حصہ کیا۔ خدا کی قدرت کہ اس میں سے جواہرات اور زمرد ولعل نکلے۔ اس کے بعد سلطان نے حکم دیا کہ اس بت کے دوٹکڑے غزنی بھیجوا دئے جائیں ۔ ان میں سے ایک ٹکڑا جامع مسجد کے دروازے پر اور دوسرا ٹکڑا ایوان سلطنت کے صحن میں رکھا جائے ۔ اس حکم کی تعمیل کی گئی۔ چنانچہ اس وقت سے لے کر ایک ہزار پانچ سال کا زمانہ گزر گیا اس کے باوجود یہ ٹکڑے وہیں رکھے ہوئے ہیں۔ مابقیہ دوٹکڑوں میں سے ایک کو مکہ شریف اور دوسرے کو مدینہ شریف بھیج دیا گیا تا کہ انھیں عام راستے میں رکھ دیا جائے اور لوگ انھیں دیکھ کر سلطان محمود غزنوی اور حضرت سید سالار مسعود غازی کی ہمت و جرات کی داد دیں۔ اور اس کارنامے کو ہمیشہ کے لئے یا درکھیں۔(سوانح مسعود غازی ص۔۴۳/ ۴۵ )
طالب دعا
محمد ابرارالقادری
مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔