AD Banner

{ads}

(سوانحِ حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ 01)

(سوانحِ امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ 01)

*تاریخِ ولادت!* ١٧ ربیعُ الاول سن ٨٠ یا ٨٣ ہجری
مطابق! 699 عیسوی

*تاریخِ وفات!* ١٥ رجب المرجب سن ١٤٨ ہجری
مطابق! 765 عیسوی

جعفر وصادق بحق ناطق واثق توئی
بہر حق مارا طریق حق نما امداد کن

صدق صادق کا تصدق  صادق الاسلام کر
بےغضب راضی ہو کاظم اور رضا کے واسطے

( اعلیٰحضرت رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ )

اللھم صل وسلّم وبارک علیہ وعلیھم وعلی المولیٰ السید الامام جعفر بن محمد الصادق رضی اللہ تعالٰی عنہ

ولادتِ باسعادت آپ کی ولادتِ باسعادت ١٧ ربیعُ الاول بروزِ دوشنبہ سن ٨٠ ہجری یا ٨٣ ہجری مدینہ منورہ میں ہوئی-
*اسم مبارک کنیت ولقب* اسم مبارک جعفر ابنِ محمد کنیت ابو عبد اللہ ابو اسمعیل اور لقب صادق، فاضل اور طاہر ہے-
*والدہ مکرمہ* آپ کی والدہ ماجدہ کا نام *ام فردہ* ہے جو دختر ہیں حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنھم کی- اس وجہ سے حضرت امام فخریہ فرمایا کرتے تھے- ولدنی الصدیق مرتین، پیدا کیا ہم کو صدیق نے دو مرتبہ؛
*حلیہ شریف* آپ بڑے حسین وجمیل اور نہایت شکیل تھے، قد مبارک موزوں اور رنگ گندم گون تھا باقی صورت وسیرت میں اپنے آبائے کرام کے مثل تھے؛
*فضائل* آپ سلسلۂ قادریہ رضویہ کے چھٹے امام ہیں اور حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بڑے صاحبزادے ہیں، آپ کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں، آپ کو اگر ملتِ نبوی کا سلطان اور دینِ مصطفوی کا برھان کہیں تو بجا ودرست ہے- آپ وقت کے امام، اہل ذوق کے پیش رو، صاحبانِ عشق ومحبت کے پیشوا تھے، عابدوں کے مقدم اور زاہدوں کے مکرم تھے، آپ نے طریقت کی بیشمار باتیں بیان فرمائی ہیں اور اکثر روایات آپ سے مروی ہیں آپ کو ہر علم و اشارات میں حد درجہ کا کمال تھا، اور آپ برگزیدہ جملہ مشائخ عظام تھے سب کا آپ کے اوپر اعتماد تھا اور آپ کو پیشوائے مطلق جانتے تھے-
حافظ ابو نعیم اصفہانی خلیفۃ الابرار میں عمر بن مقدام سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دیکھتا تھا تو مجھے خیال ہوتا تھا کہ یہ انبیاء کرام علیھم السلام کی نسل سے ہیں
طبقات الابرار میں ہے کہ آپ نے اپنے والد ماجد اور زہری اور نافع سے اور ابن منکدر وغیرہ سے حدیث لی ہے اور آپ سے سفیان ثوری، ابنِ عینیہ، شعبہ، یحییٰ القطان، امام مالک اور آپ کے صاحبزادے حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حدیث کی روایت کی ہے
اور صوائق محرقہ میں علامہ ابنِ حجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں کہ اعیان ائمہ میں سے مثل یحییٰ ابنِ سعید و ابنِ جریح و امام مالک ابنِ انس و امام سفیان ثوری و سفیان بن عینیہ و امام ابو حنیفہ و ابو ایوب سبحستانی نے آپ سے حدیث کو اخذ کیا ہے- اور ابو قاسم کہتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالٰی عنہ ایسے ثقہ ہیں کہ آپ جیسے کی نسبت ہرگز پوچھا نہیں جاتا
*عادات و صفات* آپ انتہائی بلند مقام اور نیک خصلت تھے اوصافِ ظاہری سے آراستہ اور روشنی باطن سے پیراستہ تھے، غرباء ومساکین کے ساتھ بڑی دلجوئی کے ساتھ پیش آتے تھے
منقول ہے کہ ایک دن آپ اپنے غلاموں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور ان سے کہہ رہے تھے کہ آؤ اس چیز کا عہد کریں اور ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر وعدہ کریں کہ قیامت کے روز ہم میں سے جو کوئی نجات پائے وہ باقی سب کی شفاعت کرے- ان لوگوں نے کہا *اے ابنِ رسول اللہ ﷺ!* آپ کو ہماری شفاعت کی کیا حاجت ہے اس لئے کہ آپ کے نانا جان تو خود تمام مخلوق کی شفاعت کرنے والے ہیں- تو آپ نے فرمایا کہ مجھے شرم آتی ہے کہ اپنے اعمال کے ساتھ قیامت کے دن اپنے نانا جان کے سامنے جاکر ان سے آنکھیں چار کروں-
حضرت داؤد طائی رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں آئے اور کہا *اے فرزندِ رسولِ خدا ﷺ!* مجھے کوئی نصیحت فرمائیں کیونکہ میرا دل سیاہ ہوگیا ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ *اے ابو سلیمان* تو خود اپنے زمانے کا برگزیدہ زاہد ہے تجھے میری نصیحت کی کیا حاجت ہے؟ حضرت داؤد طائی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا *اے فرزندِ رسول اللہ ﷺ* آپ کو تمام مخلوق پر برتری حاصل ہے اور ہر کسی کو نصیحت کرنا آپ پر واجب ہے- آپ نے ارشاد فرمایا *اے ابو سلیمان* میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے جدِ محترم ﷺ میرا گریبان پکڑ کر یہ پوچھنے لگیں کہ تو نے حق متابعت ادا کرنے میں کوتاہی کیوں کی؟ تو میں کیا جواب دوں گا- اس لئے یہ کام رشتۂ صحیح یا عالی خاندان پر منحصر نہیں بلکہ اس کا تعلق اچھے اعمال سے ہے جو اللہ کی راہ میں کئے جائیں- حضرت داؤد طائی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اس بات پر رونا آگیا اور کہنے لگے کہ *یا خدا!وہ شخص جس کی طینت آبِ نبوّت سے مرکب ہے اور جس کی طبیعت کا خمیر برہان وحجت سے اٹھایا گیا ہے جس کے جدِ امجد پیغمبرِ خدا ﷺ ہیں، جن کی والدہ ماجدہ حضرت بتول جیسی خاتونِ جنت ہیں، اس بات پر اتنے فکر مند ہیں تو داؤد کی کیا مجال جو اپنے معاملات پر ناز کرے -
*عبادت وریاضت* حضرت امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ آپ زہد و تقویٰ شعاری نیز ریاضت ومجاہدات اور عبادت گزاری میں مشہور تھے- امام مالک کا بیان ہے کہ ایک زمانے تک میں آپ کی خدمتِ مبارکہ میں آتا رہا- مگر میں نے ہمیشہ آپ کو تین عبادتوں میں سے ایک میں مصروف پایا- یا تو آپ نماز پڑھتے ہوئے ملتے یا تلاوت میں مشغول ہوتے یا روزہ دار ہوتے- آپ بلا وضو کبھی حدیث شریف کی روایت نہیں فرماتے تھے-
*مستجاب الدعوات* حضرت امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ اس درجہ مستجاب الدعوات و کثیر الکرامات تھے کہ جب آپ کو کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوتی تو آپ ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے کہ *اے میرے رب!* مجھے فلاں چیز کی حاجت ہے آپ کی دعا ختم ہونے سے پہلے ہی وہ چیز آپ کے پہلو میں موجود ہوجاتی-
چنانچہ ابو القاسم طبری ابنِ وہب سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے لیث ابنِ سعد رحمۃ اللّٰہ علیہ کو فرماتے سنا کہ میں سن 113 ہجری میں حج کے لئے پیدل چلتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا- عصر کی نماز کے وقت جبل ابوقبیس پر پہنچا تو وہاں ایک بزرگ کو دیکھا کہ بیٹھے ہوئے دعائیں مانگ رہے ہیں اور یا ربّ یا ربّ اتنی بار کہا کہ دم گھٹنے لگا- پھر اسی طرح یاحی یاحی کہا پھر اسی طرح لگاتار یارباہ یارباہ کہا پھر اسی طرح ایک سانس میں یا اللّٰہُ یا اللّٰہُ کہا پھر اسی طرح یا رحمٰن یا رحمٰن پھر یارحیم یارحیم پھر یا ارحم الراحمین کہتے رہے- اس کے بعد کہا یا اللّٰہ! میرا انگور کھانے کو دل چاہتا ہے وہ عطا فرما- اور میری چادریں پرانی ہوگئی ہیں مجھے نئی چادریں عطا فرما- لیث رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! ابھی آپ کی دعا ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ میں نے انگور کی ایک بھری ٹوکری رکھی دیکھی حالانکہ وہ موسم انگور کا نہ تھا اور نہ کہیں اس کا نام ونشان تھا- اور ساتھ دو چادریں بھی رکھی ہوئی تھیں کہ آج تک میں نے ویسی چادریں کہیں نہیں دیکھیں- اس کے بعد آپ انگور کھانے بیٹھ گئے- میں نے کہا حضور! میں بھی آپ کا شریک ہوں؟ فرمایا کیسے؟ میں نے کہا کہ جب آپ دعا میں مشغول تھے تو میں آمین آمین کہہ رہا تھا- آپ نے ارشاد فرمایا اچھا آگے بڑھکر کھاؤ- میں بھی آگے بڑھکر کھانے لگا وہ انگور ایسے عمدہ اور لذیذ تھے کہ میں نے ویسے انگور کہیں نہیں کھائے- یہاں تک کہ میں سیر ہوگیا اور ٹوکری ویسی کی ویسی بھری رہی- اس کے بعد فرمایا اس سے ذخیرہ مت رکھنا اور نہ ہی اس سے کچھ چھپانا- پھر ایک چادر بھی مجھے عنایت فرمانے لگے- میں نے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے اس کے بعد آپ نے ایک چادر کا تہبند باندھا اور دوسری چادر کو اوڑھ لیا اور دونوں پرانی چادریں ہاتھ میں لئے ہوئے نیچے اترے میں بھی آپ کے پیچھے چلنے لگا- جب آپ صفا مروہ کے قریب پہنچے تو ایک سائل نے کہا-
اکسنی کساک اللّٰہُ یا ابنِ رسولِ اللّٰہِ حلۃ من حلل الجنۃ فدفعھما الیہ فلحقت الرجل فقلت لہ من ھذا فقال جعفر بن محمد فطلبتہ لاسمع منہ شیئا انفع بہ فلم اجدہ یعنی اے ابنِ رسول اللّٰہ ﷺ! یہ کپڑا مجھے پہنا دیجئے اللہ تعالٰی آپ کو جنت کا حلہ پہنائے گا تو انھوں نے وہ دونوں چادریں اس کو دیدیں- میں نے اس سائل کے پاس جاکر اس سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ اس نے کہا یہ حضرت امام جعفر صادق بن محمد رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہما ہیں- میں نے پھر ان کو ڈھونڈا تاکہ ان سے کچھ سنوں اور نفع حاصل کروں مگر میں ان کو نہ پاسکا-

قیمتی لباس اسی طرح ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ کو لوگوں نے بہت ہی عمدہ اور بیش قیمت لباس زیبِ تن کئے ہوئے دیکھا ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا کہ اے ابنِ رسول اللّٰہ ﷺ! اتنا قیمتی لباس اہلبیت کرام کو زیبا نہیں؟ یہ سن کر آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر آستین کے اندر کھینچ کر دکھایا کہ دیکھو یہ کیا ہے؟
اس نے آپ کو اندر ٹاٹ جیسا کھردرا لباس پہنے ہوئے دیکھا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ اندر والا خالقِ حقیقی کیلئے ہے اور اوپر والا عمدہ لباس مخلوق کے واسطے-(مشائخِ قادریہ برکاتیہ رضویہ/صفحہ: 143/144/145/146)
تاریخ! ١٥ رجب المرجب سن ١٤٤٢ ہجری
مطابق: 28 فروری سن 2021 عیسوی
بروزِ اتوار
عبد القاسم خان برکاتی



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner