AD Banner

{ads}

حاملہ عورت رو زہ رکھ سکتی ہے یا نہیں؟

 (حاملہ عورت رو زہ رکھ سکتی ہے یا نہیں؟)

مسئلہ :کیا فرما تے ہیں مفتیان دین مسئلہ ذیل میں کہ عورت حالت حمل میں روزہ رکھ سکتی ہے یا نہیں؟بینوا تو جروا                 

المستفتی ۔سرفراز احمد کا ن پو ر

الجـــــــــــــــــــــــــــــــواب بعو ن المجیب الوہاب ھو الھادی الی الصواب

صورت مسئولہ میں اگر حا ملہ عورت کو اپنی جان یا بچہ کے ضرر پہو نچنے کا صحیح اندیشہ ہو تو اجا زت ہے کہ رو زہ چھوڑ دے اس وقت نہ رکھیں بعد میں پھر اس کی قضا جب چاہے کرے اس میں کفا رہ نہیں صرف قضاہے ۔

جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ’’عن انس بن ما لک رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ  ﷺ ان اللہ وضع عن المسا فر شطر الصلوۃ والصوم وعن المر ضع والحبلی‘‘ یعنی حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول کریم  ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعا لی نے (شرعی) مسا فر سے آ دھی نماز معا ف فر ما دی (یعنی مسا فر چا ر رکعت وا لی فرض نماز دو پڑھے  )اور دو دھ پلا نے وا لی اور حا ملہ عورت سے رو زہ معاف کر دیا ( یعنی ان لو گوں کواجازت ہے کہ اس وقت روزہ نہ رکھیں بعد میں قضا کرلیں ۔(ترمذی جلد ۱؍ ۱۵۲،ابو دا ؤد جلد ۱؍ ۳۲۷، نسا ئی جلد ۱؍ ۲۴۸،ابن ما جہ جلد ۱؍ ۱۲۰،مشکوۃ ؍۱۷۸)

اور حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ اس حدیث شریف کے تحت رقمطراز ہیں:’’افطار مرضع وحبلی را بر تقدیر ے است کہ اگر زیاں کند بچہ را یا نفس ایشا ں را ‘‘ یعنی دودھ پلا نے والی اور حا ملہ عورت کورو زہ نہ رکھنے کی رخصت صرف اس صورت میں ہے کہ بچے کو یا خود اس کو رو زہ سے نقصان پہو نچے(ورنہ رخصت نہیں ہے )(اشعۃ اللمعات جلد ؍۲؍۹۲)

اور فتا وی ہندیہ میں ہے :’’ ومنھا حبل المرأۃ وارضا عھا الحا مل والمرضع اذ خافتا علی انفسھما او ولد ھما افطر تا وقضتا ولا کفا رۃ علیہما کذا فی الخلاصۃ ۔اھ ملخصا (فتا ویٰ ہندیہ جلد ۱؍ ۲۰۷،فتاویٰ قاضی خاں جلد ۱؍ ۲۰۲،فتا ویٰ بزازیہ جلد ۱؍ ۱۰۵،ہدا یہ جلد اول ؍ ۲۲۲ ،مرا قی الفلاح ۲۵۰،فتاویٰ رضویہ جلد ۴؍۶۳۵،بہار شریعت ۵؍۱۰۹) وھو تعا لی اعلم با لصواب 

العبد محمد معین الدین خاں رضوی ہیم پو ری غفرلہ القوی

کتـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــبہ

۸؍جما دی الاولیٰ ۱۴۲۹؁ھ




Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner