(سلطان محمود غزنوی کا استقامت فی الدین)
سلطان محمود غزنوی اگر چہ ایک عظیم شہنشاہ تھے۔ انھوں نے نہ جانے کتنی فتوحات حاصل کئے تھے۔ لیکن وہ ان فتوحات کی نشے میں چور نہیں ہوئے اور نہ ہی اپنے اندر فخر و غرور پیدا کیا بلکہ اپنے آپ کو ہمیشہ ایک بندہ عاجز ومسکین تصور کرتے۔ زہد و تقویٰ ، عبادت و ریاضت اور حسن سلوک میں وہ اپنے زمانے میں یکتا تھے ۔ احکام شریعت کی پابندی ، عشق رسول ﷺ سے سرشاری اور بزرگوں سے بے پناہ عقیدت آپ کی زندگی کے نمایاں پہلو ہیں۔ جو تاریخ کے صفحات میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جن کا ذکر بیان باعث طوالت ہے۔ عاشق رسول ﷺ ایسے تھے کہ روزانہ بلا ناغہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر بطور وظیفہ صدق نیت اور فرط محبت سے ایک لاکھ بار درود شریف پڑھتے اور اس کا ثواب سرکار دو عالم میں کی بارگاہ میں نذر کرتے ۔
دیدار پر انوار
چوں کہ اس قدر درود پاک پڑھنے میں تمام دن گذر جاتے اور انتظام مملکت کے واسطے فرصت کا وقت ہاتھ نہیں آتا۔ ایک رات عالم خواب میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے سلطان محمود کو زیارت جمال آرا سے سرفراز فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اے محمود اس درود شریف کو ہر روز بعد نماز فجر ایک مرتبہ پڑھ لیا کرو گے تو تمہیں ایک لاکھ بار درود شریف پڑھنے کا ثواب ملے گا اور اس کی برکت سے میری محبت میں کامل ہوگا ۔ پس سلطان محمود نے مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد و ہدایت کے مطابق ہر روز اس درود پاک کو پڑھتے اور اس مژدہ سے ہر شخص کو خبر کر دی کہ درود شریف پڑھنے والے اگر حصول ثواب کی نیت سے اس درود پاک کو ایک بار پڑھ لیں تو ایک لاکھ بار درود شریف پڑھنے کا ثواب ملتا ہے۔ اس لئے یہ درود لاکھی کے نام سے مشہور ہوا اور درود شریف کی کتابوں میں درود لکھی درج ہے وہاں سے مطالعہ کرلیں ۔
وزیر اعظم کی معزولی اور سلطان محمود کی وفات
سالار مسعود کے غزنی سے آجانے کے بعد خواجہ احمد وزیر اعظم کو ایک طرح کا اطمینان حاصل ہو چکا تھا۔ لیکن سلطان محمود کو بہر حال احساس ہو چلا تھا کہ خواجہ احمد کا وجود دولت غزنویہ کے لئے فال نیک ثابت نہ ہوگا۔ یہ احساس ان کو اس وقت اور زیادہ ہوا جب حضرت سیدنا سالار مسعود غازی کی طرح دوسرے اور بھی جانثاروں نے خواجہ احمد میمندی کی بد اخلاقی سے تنگ آکر غزنی کو چھوڑ کر ہندوستان کی جانب روانہ ہو گئے۔ ان میں پانچ قابل ذکر سردار یہ ہیں: سید اعزالدین، مہی بختیار، سیف الدین ،ملک،
ملک دولت شاہ، میاں رجب سالار بادشاہ کو بڑھاپے میں ان تکلیفوں نے اور نڈھال کر دیا تھا۔ اس لئے سلطان نے سختی شروع کر دی اور سلطان نے خواجہ احمد میمندی کو وزارت عظمی سے معزول کر دیا اور اس کی جگہ امیر جنگ میکائیل کو وزارت عظمی کا منصب عطا کیا۔ اور خواجہ احمد کو میں کالنجر کے قلعے میں نظر بند کر دیا۔ جہاں تین سال کے بعد اس کی موت واقع ہو گئی ۔ خواجہ احمد کو وزارت سے معزول کرنے کے چند ہی ماہ بعد ۳۰ / ربیع الاول ۴۳۰ھ بروز جمعرات ترسٹھ سال کی عمر میں سلطان محمود غزنوی کا بھی وصال
ہو گیا۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
سلطان کے وصال کے بعد حکومت غزنویہ کا سنہرا باب محو ہو گیا۔ کفرستان کی سرحدوں پر چراغاں کے گئے۔ ادھر مملکت اسلامیہ سوگوار ہوگئی۔ وہ باحمیت غیرت مند سلطان دنیا سے روپوش ہو گیا۔ مگر ننگے، بھوکے، فاقہ کش ، مزدوروں، یتیموں، بیواؤں، مظلوموں ، دکھیاروں اور دردمندوں کی بے آواز چھینیں کسی ایسے محمود کو آواز دیتی رہیں گی۔
تو ہمات کے لاکھوں صنم کدوں کا وجود
ترس رہا ہے کسی ایک غزنوی کے لئے
دریائے سندھ کے کنارے
حضرت سالار مسعود غازی والدین کریمین کی جدائی کے بعد راستے کے مصائب و آلام جھیلتے ہوئے جب دریائے سندھ کے کنارے پہونچے تو امیر حسن اور امیر بایزید جعفر نے آپ کے حکم کے مطابق ہزار سوار سے شیو پور کا محاصرہ کیا۔ رائے ارجن کو شکست دے کر اس کے گھر اور حویلیوں پر قبضہ کر کے دس لاکھ سونے کے سکے اور کافی مال و اسباب ہاتھ آئے ۔ وہ سارا مال غنیمت آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ یہ تمہاری پہلی فتح کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے اس لئے اسے خرچ کر لو۔ پھر کشتیوں پر سوار ہو کر دریا پار ہو کر مشرقی کنارے پر آئے اور چند روز قیام فرمایا۔ شکار کے لئے جگہ اچھی تھی ، آپ یہاں شکار کھیلتے رہے اور اہل لشکر آس پاس کے علاقے فتوحات کرتے رہے۔ چند دنوں کے بعد جب دریائے سندھ سے کوچ کر کے ملتان میں پہونچے تو ملتان کے زمیندار انگپال سے جنگ چھڑ گئی۔ دیر تک گھمسان کی لڑائی ہوتی رہی جس میں دونوں طرف سے بے شمار آدمی کام آئے۔ آخر کار انگپال کی شکست ہوئی اور کافی مال غنیمت ہاتھ آئے ۔ جسے آپ نے اہل لشکر میں تقسیم فرمایا۔ اب چوں کہ برسات کا موسم شروع ہو گیا تھا۔ اس لئے چار ماہ ملتان میں رہ کر اجود ھن ( پاک پٹن ) کی طرف کوچ فرمایا۔ اجودھن اس زمانے میں بہت آباد تھا۔ مگر بغیر جنگ کے فتح ہو گیا۔ آپ کو اجودھن کی آب و ہوا بہت پسند آئی ۔ شکارگاہ بھی یہاں اچھی تھی۔ لہذا نو مہینے یہاں قیام فرمایا۔ حتی کہ دوسرا بارش کا موسم آ گیا۔ چنانچہ یہ برسات بھی و ہیں گذاری اس کے بعد دہلی کی طرف رخ کیا۔(سوانح مسعود غازی ص۔۴۸/ ۵۰
طالب دعا
ابرار القادری
مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔